وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان کہتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے پیش نظر بھی ملکی قوانین میں موت کی سزا کا ہونا ضروری ہے۔
اسلام آباد —
پیپلز پارٹی کی گزشتہ انتظامیہ کے برعکس، نواز شریف کی نو منتخب حکومت موت کی سزا پر عمل درآمد سے متعلق عائد پابندی کو برقرار نا رکھتے ہوئے ’’نئی پالیسی‘‘ کے تحت ایسے قیدیوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ صرف انسانی ہمدردی کی بنیادوں پرمعاف کیے گئے قیدیوں کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد نہیں ہوگا۔
’’ہماری پالیسی مختلف ہے۔ پہلے تو تمام موت کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کیا جارہا تھا مگر اب میرٹ پر فیصلہ ہوگا اور صرف جو ضعیف ہیں یا حاملہ خواتین وغیرہ کے کیسسز کو ہمدردی کی بنیاد پر لیا جائے گا۔‘‘
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے لگ بھگ آٹھ ہزار قیدی ہیں جن میں سے ایک قابل ذکر تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جو کہ گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی سزا پر عمل درآمد کا انتظار کررہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں حکومت میں آنے کے بعد ایک صدارتی حکم کے ذریعے موت کی سزا کے اطلاق پر پابندی عائد کر دی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں سزائے موت کی مخالفت کرتی ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ تاہم پانچ سال گزرنے کے بعد بھی اس پر اب تو کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
عدالت اعظمیٰ میں درخواست دائر کرنے والے وکیل بیرسٹر ظفراللہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ’’غیر فعال‘‘ تحقیقاتی اور عدالتی نظام کے باعث ایک معصوم فرد کے خلاف کارروائی کا بہت بڑا خطرہ موجود ہے اور ملکی آئین اور بین الاقوامی قوانین بھی سزائے موت پر عمل درآمد کے حق میں نہیں ہیں۔
’’ایک غریب آدمی جو اچھا وکیل نہیں کر سکتا تو اسکا کیس حکومت کی طرف نامزد وکیل کم پیسوں پر کتنی دلچسپی کے ساتھ لڑے گا؟ پیسے والا تو مرڈر کیس میں رہا ہو جاتا ہے مگر غریب نہیں بچتا۔ اوپر سے جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی کوٹھڑیوں کی بری حالت ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق 150 سزائے موت کے قیدی دس اور پندرہ سال سے جیلوں میں پڑے ہیں۔
ظفراللہ خان نے بتایا کہ عدالت اعظمیٰ میں ایک اور درخواست میں انہوں نے استدعا کی ہے کہ ان افراد کی موت کی سزائیں ختم کر دی جائیں کیونکہ ملک کے قانون کے تحت کسی بھی شخص کو ایک جرم کی دو سزائیں نہیں ہوسکتیں۔
تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا ’’ان میں ایسے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے سنگین جرم کیے ہیں تو یہ کہہ دینا کہ ہمارے عدالتی نظام میں بڑی خامیاں ہیں۔ ہمیں اپنے عدالتی نظام پر اعتماد ہونا چاہئے وہ شفافیت اور بہتری لا رہے ہیں۔‘‘
عمر حامد خان کہتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے پیش نظر بھی ملکی قوانین میں موت کی سزا کا ہونا ضروری ہے۔
غیر سرکاری تنظیم لائیر فار ہیومن رائٹس اور لیگل ایڈ کے سربراہ ضیاء احمد اعوان کہتے ہیں کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے قانون و انصاف کے نظام میں تبدیلی اشد ضروری ہے۔
’’آپ کو شواہد اکٹھا کرنے کے نظام کو بہتر اور جدید تقاضوں کے مطابق بنانا ہوگا۔ گواہوں اور ججوں کو تحفظ فراہم کرنے کا نظام متعارف کروانا ہوگا۔ صرف سزاؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر سزاؤں سے جرائم رکتے تو جنرل ضیاء کے حدود کے قوانین کے باجود جرم نا صرف رکا نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے اور انسانی جان کو اہمیت دیتے ہوئے حکومت کو سزائے موت کے خاتمے کے لیے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کرنا چاہیے۔
وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ صرف انسانی ہمدردی کی بنیادوں پرمعاف کیے گئے قیدیوں کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد نہیں ہوگا۔
’’ہماری پالیسی مختلف ہے۔ پہلے تو تمام موت کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کیا جارہا تھا مگر اب میرٹ پر فیصلہ ہوگا اور صرف جو ضعیف ہیں یا حاملہ خواتین وغیرہ کے کیسسز کو ہمدردی کی بنیاد پر لیا جائے گا۔‘‘
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے لگ بھگ آٹھ ہزار قیدی ہیں جن میں سے ایک قابل ذکر تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جو کہ گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی سزا پر عمل درآمد کا انتظار کررہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں حکومت میں آنے کے بعد ایک صدارتی حکم کے ذریعے موت کی سزا کے اطلاق پر پابندی عائد کر دی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں سزائے موت کی مخالفت کرتی ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ تاہم پانچ سال گزرنے کے بعد بھی اس پر اب تو کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
عدالت اعظمیٰ میں درخواست دائر کرنے والے وکیل بیرسٹر ظفراللہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ’’غیر فعال‘‘ تحقیقاتی اور عدالتی نظام کے باعث ایک معصوم فرد کے خلاف کارروائی کا بہت بڑا خطرہ موجود ہے اور ملکی آئین اور بین الاقوامی قوانین بھی سزائے موت پر عمل درآمد کے حق میں نہیں ہیں۔
’’ایک غریب آدمی جو اچھا وکیل نہیں کر سکتا تو اسکا کیس حکومت کی طرف نامزد وکیل کم پیسوں پر کتنی دلچسپی کے ساتھ لڑے گا؟ پیسے والا تو مرڈر کیس میں رہا ہو جاتا ہے مگر غریب نہیں بچتا۔ اوپر سے جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی کوٹھڑیوں کی بری حالت ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق 150 سزائے موت کے قیدی دس اور پندرہ سال سے جیلوں میں پڑے ہیں۔
ظفراللہ خان نے بتایا کہ عدالت اعظمیٰ میں ایک اور درخواست میں انہوں نے استدعا کی ہے کہ ان افراد کی موت کی سزائیں ختم کر دی جائیں کیونکہ ملک کے قانون کے تحت کسی بھی شخص کو ایک جرم کی دو سزائیں نہیں ہوسکتیں۔
تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا ’’ان میں ایسے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے سنگین جرم کیے ہیں تو یہ کہہ دینا کہ ہمارے عدالتی نظام میں بڑی خامیاں ہیں۔ ہمیں اپنے عدالتی نظام پر اعتماد ہونا چاہئے وہ شفافیت اور بہتری لا رہے ہیں۔‘‘
عمر حامد خان کہتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے پیش نظر بھی ملکی قوانین میں موت کی سزا کا ہونا ضروری ہے۔
غیر سرکاری تنظیم لائیر فار ہیومن رائٹس اور لیگل ایڈ کے سربراہ ضیاء احمد اعوان کہتے ہیں کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے قانون و انصاف کے نظام میں تبدیلی اشد ضروری ہے۔
’’آپ کو شواہد اکٹھا کرنے کے نظام کو بہتر اور جدید تقاضوں کے مطابق بنانا ہوگا۔ گواہوں اور ججوں کو تحفظ فراہم کرنے کا نظام متعارف کروانا ہوگا۔ صرف سزاؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر سزاؤں سے جرائم رکتے تو جنرل ضیاء کے حدود کے قوانین کے باجود جرم نا صرف رکا نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے اور انسانی جان کو اہمیت دیتے ہوئے حکومت کو سزائے موت کے خاتمے کے لیے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کرنا چاہیے۔