صحافیوں کے قتل میں ملوث افراد کو سزا نہ ملنے کا رجحان، پاکستان کا نواں نمبر

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان 12 ممالک کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے جہاں صحافیوں کے قتل میں ملوث عناصر سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں صحافتی آزادیوں اور صحافیوں کو درپیش خطرات پر نظر رکھنے والی تنظیموں نے ملک میں صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے اور ملک میں سینسر شپ بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

صحافی تنظیموں کی جانب سے پاکستان میں صحافیوں کو درپیش مشکلات اور سینسر شپ پر تشویش ایسے وقت میں ظاہر کی گئی ہے جب منگل کو صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں میڈیا پر نظر رکھنے والے دو اداروں فریڈم نیٹ ورک اور پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے رواں سال پاکستان میں متعدد صحافیوں کے خلاف جسمانی اور آن لائن حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر قوانین وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

'سی پی جے' کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایسے ممالک جہاں صحافیوں کے قتل میں ملوث افراد کو انصاف کو کٹہرے مین لانے کے حوالے سے صورتِ حال انتہائی خراب ہے ان میں صومالیہ، شام، عراق ، جنوبی سوڈان، افغانستان ،میکسیکو، فلپائن، برازیل، پاکستان، روس، بنگلہ دیش اور بھارت شا مل ہیں۔

سی پی جے کے 2021 کے گلوبل امپیونٹی انڈیکس کے مطابق گزشتہ 10 برسوں کے دوران صحافیوں کے قتل کے 81 فی صد واقعات میں کسی ایک ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکی۔

'صحافیوں کے قتل میں ملوث عناصر کو قانون کی گرفت میں لانا ہو گا'

اس تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان دو سال قبل بھی سی پی جے کے انڈیکس کے مطابق پانچویں نمبر پر تھا جب کہ اب بھی یہ ملک اسی درجے پر ہے۔

امریکی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان کی طرف سے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کی طرف سے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے اعلانات کے باوجود بڑی تعداد میں افغان صحافی اپنے تحفظ کے لیے ملک چھوڑ چکے ہیں۔

فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک کا کہنا ہے ان کی تنظیم کی معلومات کے مطابق 2001 سے لے کر اب تک پاکستان میں 150 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کسی ایک صحافی کے قتل میں ملوث شخص کو سزاوار نہیں ٹھیرایا جا سکا۔

اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے تمام شراکت داروں کو مل کر یہ سوچ بچار کرنا ہو گی ہے کہ صحافیوں کے قتل اور دیگر واقعات میں ملوث افراد کو کیسے قانون کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

موجودہ دور میں پاکستان میں صحافی ہونا کتنا مشکل ہے؟

اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی ضروری ہے۔

ان کے بقول اگرچہ سندھ حکومت اس حوالے سے ایک قانون منظور کر چکی ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے بھی طریقۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

اقبال خٹک نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی کابینہ کی طرف سے منظور کردہ، صحافیوں کے تحفظ کے مجوزہ بل کو جلد ازجلد پارلیمان میں پیش کیا جائے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی 2021 سے متعلق رپورٹ کے مطابق رواں برس اب تک صحافیوں کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کے دوران 27 ایسے واقعات ہوئے جب اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اُن کے بقول سوشل میڈیا پر سرگرم صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رائج سائبر کرائم کی روک تھام کے قوانین کے تحت گزشتہ تین برسوں کے دوران متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔

تنظیم کے مطابق صوبہ پنجاب اس حوالے سے نہایت خطرناک صوبہ رہا ہے جہاں صحافیوں کے خلاف سائبر کرائمز کی روک تھام کے قانون کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔

اقبال خٹک کے مطابق سائبر کرائم قانون آن لائن جرائم اور ہراسانی روکنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن اس کا زیادہ استعمال اب صحافیوں کے خلاف ہو رہا ہے۔

ان کے بقول پاکستان کے روایتی میڈیا میں آزادیٔ اظہار محدود ہو رہی ہے اور اب آن لائن اور یو ٹیوب پر سرگرم صحافیوں کے خلاف بھی یہ قانون استعمال کرنے کے واقعات منظر عام آ رہے ہیں جو ان کےبقول باعث تشویش ہے۔

سی پی جے اور پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی رپورٹس پر تاحال پاکستان حکومت نے کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

البتہ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور ان کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔