’مشروط امریکی امداد قابل قبول نہیں‘

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس

پاکستان کو فوجی امداد کی معطلی کی خبر پہلی مرتبہ امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے دی تھی جس میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس اقدام کا مقصد پاکستان کو امریکی فوجی تربیت کاروں کو ملک سے نکالنے کے فیصلے پر پچھتاوے کا احساس دلانا اور پاکستانی فوج پر شدت پسندوں کے خلاف ”زیادہ موثر“ انداز میں کارروائی کرنے کے حوالے سے دباؤ بڑھانا ہے۔

پاکستانی فوج نے کہا ہے کہ شرائط پر مبنی امداد اُس کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور نا ہی امریکی امداد کی معطلی سے انسداد دہشت گردی کی مہم متاثر ہو گی۔

پیر کو وائس آف امریکہ سے تفصلی گفتگو میں فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہرعباس نے کہا کہ ’’نا تو امریکی امداد کے حصول کے لیے ہمیں روزانہ اپنی کارکردگی ثابت کرنے کی ضرورت ہے اور نا ہی امداد کی بحالی یا پھر فراہمی کا معاملہ ہر وقت موضوع بحث رہنا چاہیئے۔“

ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان ایک ایسے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں جو دونوں کے لیے خطرہ ہے۔ اُنھوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ باہمی تعاون سے ہی اس جنگ میں پیش رفت اور کامیابی ممکن ہے۔

میجر جنرل عباس نے بتایا کہ امریکی حکام نے امداد کی معطلی کے حوالے سے پاکستان کو تاحال باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا ہے۔

لیکن اُن کے بقول امریکی امداد معطل ہونے کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی مہم متاثر نہیں ہو گی کیوں کہ اس میں بیرونی امداد کا عمل دخل نہیں ہوتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ معطل کی جانے والی امداد میں ایسی فوجی کارروائیوں پر اُٹھنے والے اخراجات بھی شامل ہیں جنھیں منطقی انجام تک پہنچایا جا چکا ہے۔ ”ہم اپنے آپریشن بغیر کسی بیرونی امداد کے سرانجام دیتے ہیں اور انھیں جاری رکھنے کے لیے ہمیں درکار وسائل اندرون ملک دستیاب ہیں۔“

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امریکہ کی طرف سے امداد کی معطلی کو تادیبی کارروائی قرار دیا۔ ”ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ پاکستان پر فوجی و دیگر پابندیوں سے خود امریکہ کے مفادات کا نقصان پہنچا اور میں سمجھتی ہوں کہ نتیجہ اس مرتبہ بھی مختلف نہیں ہوگا۔ “

ملیحہ لودھی (فائل فوٹو)

اُنھوں نے کہا کہ تادیبی کارروائیاں امریکی سفارت کاری کی ناکامی کو اُجاگر کرتی ہیں ۔ ”اگر پاکستان کے تعاون کے حصول کا یہی طریقہ ہے تو یہ اُس کی حوصلہ افرائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کرنا ہے۔“

ملیحہ لودھی نے دونوں ملکو ں پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کو کم کر کے اپنے مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کریں ۔ ”یہ باعث حیرت ہے کہ اب جب کہ کشیدگی کو کم کرنے کی ضرورت ہے امریکہ نے پاکستان کی امداد معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“

وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ویلیم ڈیلی نے اتوار کو تصدیق کی تھی کہ پاکستان کو دی جانے والی 80 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد معطل کر دی گئی ہے۔ اُنھوں نے اس اقدام کی وضاحت کیے بغیر کہا کہ اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے لیے گئے ”بعض اقدامات“ ہیں۔

پاکستان کو فوجی امداد کی معطلی کی خبر پہلی مرتبہ امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے دی تھی جس میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کا مقصد پاکستان کو امریکی فوجی تربیت کاروں کو ملک سے نکالنے کے فیصلے پر پچھتاوے کا احساس دلانا اور پاکستانی فوج پر شدت پسندوں کے خلاف ”زیادہ موثر“ انداز میں کارروائی کرنے کے حوالے سے دباؤ بڑھانا ہے۔

قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں تعینات اہلکار (فائل فوٹو)



کانگریشنل ریسرچ سروس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے گزشتہ سال پاکستان کو 2.7 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی۔

میجر جنرل اطہر عباس نے بتایا کہ امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان کو اب تک اُن اخراجات کی بھی مکمل طور پر ادائیگی نہیں کی گئی ہے جو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر کیے جا چکے ہیں۔

اُن کے بقول گزشتہ 10 سالوں کے دوران جنگ پر اُٹھنے والے 13 ارب ڈالر سے زائد کے اخراجات میں سے اب تک امریکہ نے حکومت پاکستان کو تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالر ادا کیے ہیں جس میں فوج کو بمشکل دو ارب ڈالر ملے ہیں۔