نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم کے مسودے پر پارلیمانی جماعتوں کا اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
تازہ مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کے مجوزہ قانون پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بدھ کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمانی راہنماؤں کا ہونے والا اجلاس اس سے قبل ہونے والے تین اجلاسوں کی طرح بے نتیجہ رہا۔
اجلاس کے بعد صحافیوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھیجا جائے لیکن "کچھ پارلیمانی راہنماؤں کی خواہش ہے کہ پارلیمنٹ مشترکہ مفادات کونسل سے کسی بھی طرح کم تر ادارہ نہیں اور پارلیمنٹ کو ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔"
انھوں نے بتایا کہ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلائے اور اس میں یہ مسودہ پیش کرے۔
"جو وزرا یہاں تشریف رکھتے ہیں یہ حکومت سے بات کر کے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ اگر اس اجلاس میں فیصلہ ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر نہیں ہوتا تو پھر ہم پارلیمانی راہنماؤں کا ایک اور اجلاس بلا کر فیصلہ کریں گے کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔"
پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو خصوصاً سندھ میں ہونے والی مردم شماری پر تحفظات ہیں اور ان کا موقف ہے کہ تحفظات دور ہونے تک وہ اس آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گی۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ اگر یہ ترمیم منظور نہیں ہوتی تو انتخابات میں تاخیر سے بچنے کے لیے پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہی انتخابات کرا لیے جائیں۔
اس بارے میں اسپیکر قومی اسمبلی نے صحافیوں کو بتایا کہ قانونی وجوہات کی بنا پر 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات منعقد نہیں ہو سکتے اور اس بارے میں اجلاس کے شرکا کو الیکشن کمیشن اور وزارتِ قانون کے عہدیداروں نے آگاہ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ خود سپریم کورٹ سے رجوع کر کے اس بارے میں ہدایت لے گا لیکن ان کے بقول "ہماری خواہش ہے کہ پارلیمنٹ کا کام پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے، وہ کسی اور ادارے کو نہیں کرنا چاہیے۔"
نئی حلقہ بندیوں کے مسودے کے تحت پنجاب سے قومی اسمبلی کی نو نشستیں کم ہو جائیں گی جب کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد سے نشستوں میں اضافہ ہوگا۔
سندھ اور قبائلی علاقوں سے ایوانِ زیریں کے لیے موجودہ نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔