’سیاسی مداخلت اور انتظامی کمزوریاں پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ‘

’سیاسی مداخلت اور انتظامی کمزوریاں پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ‘

پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو بھی پاکستان کی ماضی کی حکومتوں کی طرح ناقص طرزِ حکمرانی اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے تاہم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اُن کے مشیر انھیں حزب اختلاف کی طرف سے تنقید برائے تنقید قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔

لیکن ملک میں ترقی سے متعلق سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے ایک اعلیٰ مشیر ڈاکٹر وقار احمد نے پیر کو اسلام آباد میں ایک سمینار سے خطاب میں اعتراف کیا کہ ترقیاتی عمل میں سیاسی مداخلت، انتظامی کمزوریاں اور غیر متعلقہ افسران کو اہم ذمہ داریاں سونپنے کی پالیسی پاکستان میں مجموعی ترقی کے عمل کو متاثر کر رہی ہے۔

وقار احمد نے کہا کہ سیاسی مفادات کی خاطر قومی حکمت عملی کو نظر انداز کرکے بعض اوقات ایک ہی نوعیت کے ایک سے زائد ترقیاتی منصوبے شروع کر دیے جاتے ہیں جن پر وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے بعد میں نظرِ ثانی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اُنھوں نے اپنی تقریر میں اس بارے میں نا تو کسی خاص منصوبے اور نا ہی براہ راست پیپلز پارٹی کی حکومت کا ذکر کیا۔

وقاراحمد

منصوبہ بندی کمیشن کے مشیر کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے وسائل ملک میں بنیادی ڈھانچے مثلاً سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ مقصد نجی شعبے سے شراکت داری کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے، جس سے محدود قومی وسائل کا رخ صرف اور صرف سماجی اور معاشی ترقی کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔

سمینار میں شریک غیر سرکاری تنظیم ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سُلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ترقیاتی منصوبوں پر عمل در آمد کے دوران مبینہ بدعنوانی ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔

’’ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس مناسب وسائل موجود نہیں ہیں لیکن دوسری طرف منصوبہ بندی کمیشن کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ تقریباً 40 فیصد وسائل ضائع ہو جاتے ہیں چاہے وہ بدعنوانی کی وجہ سے ہوں یا کسی دوسری وجہ سے۔‘‘

پاکستان اس وقت شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے اور معیشت میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے اس کا زیادہ انحصار غیرملکی قرضوں پر ہے۔ مالی امداد دینے والے ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی ملک میں اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے طرز حکمرانی کو موثر اور سرکاری اداروں میں بدعنوانی ختم کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 60 ارب ڈالر ہونے کی بڑی وجہ بھی اقتصادی بد انتظامی اور بد عنوانی ہے۔