پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کی پولیس نے دو سال قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے 40 اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔
جولائی 2013ء میں جدید ہتھیاروں سے لیس شدت پسندوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملہ کر کے وہاں سے اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت 280 سے زائد قیدیوں کو فرار کروایا تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی اور اس میں پولیس اہلکاروں سمیت کم ازکم 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی پولیس افسر صادق بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حملے کے وقت جیل میں ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کے خلاف محکمانہ تحقیقات شروع کی گئی تھیں جس میں ان اہلکاروں کو غفلت کا مرتکب پایا گیا۔
"اس وقت چالیس اہلکار موجود تھے جیل میں، آئی جی صاحب کی ہدایت پر انکوائری شروع کی گئی تھی۔ ان سب کو برخاست کر دیا گیا ہے۔"
برخاست کیے جانے والوں میں ایک سب انسپکٹر، تین ہیڈ کانسٹبلز اور 36 کانسٹبلز شامل ہیں۔ یہ افراد اس محکمانہ فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
شدت پسندوں کی طرف سے 2012ء میں بنوں کی مرکزی جیل پر بھی حملہ کیا گیا تھا جس سے یہاں قید سینکڑوں قیدی فرار ہو گئے تھے۔ ان حملوں میں فرار ہونے والے قیدیوں میں دہشت گردی سمیت سنگین جرائم میں ملوث لوگ بھی شامل تھے۔
ملک کو درپیش صورتحال اور جیلوں پر حملوں کے تناظر میں مختلف شہروں میں قائم جیلوں کی سکیورٹی پہلے ہی انتہائی سخت کی جا چکی ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو بھی یہاں چوکس رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں شمالی علاقے گلگت بلتستان کی ایک جیل سے بھی چار قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جن میں سے ایک ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا جب کہ دو بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
فرار ہونے والے قیدیوں میں سے ایک کے بارے میں حکام کا کہنا تھا کہ وہ جون 2013ء میں نانگا پربت کے بیس کیمپ پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا۔
اس حملے میں دس غیر ملکی سیاحوں سمیت 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔