ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان تین روزہ سرکاری دورے پر اتوار کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، جہاں سیاسی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر بات چیت کی جائے گی۔
پاکستانی وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی دعوت پر کیے جانے والے اس دورے میں مسٹر اردوان کے وفد میں سات ترک ورزاء بھی شامل ہیں۔
پاکستان اور ترکی دوطرفہ تجارت کے سالانہ حجم کو دو ارب ڈالر کی سطح پر پہنچانے کے خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے وزراء اعظم اعلیٰ سطحی تعاون کونسل کے اجلاس کی مشترکہ سربراہی بھی کریں گے، جس کے اختتام پر دونوں ممالک کی جانب سے پانچ معاہدوں پر دستخط کرنے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
مسٹر اردوان پیر کو خصوصی طور پر بلائے گئے پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کریں گے۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب پاکستانی وزیرِ اعظم کو توہین عدالت کے جرم میں سزا کے بعد حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگ (ن) نے پارلیمان کے اندر اور سڑکوں پر مسٹر گیلانی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے اور خصوصاً قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاسوں کے دوران ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی ہے۔
لیکن مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ترجمان سینیٹر مشاہد اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترک وزیرِ اعظم کے پاکستانی پارلیمان سے خطاب کے موقع پر اپوزیشن جماعت کی حکمت عملی کے سلسلے میں قیادت صلاح و مشورے کر رہی ہے، اور حتمی فیصلے کا اعلان پیر کو اجلاس سے کچھ دیر قبل کیا جائے گا۔
’’ترکی ناصرف ہمارا برادر اسلامی ملک ہے بلکہ تاریخی طور پر ہمارا ایک روایتی رشتہ بھی ہے اور اس کے علاوہ نواز شریف اور اُن (مسٹر اردوان) کے قریبی تعلقات ہیں۔ تو حکمت عملی جو بھی ہو ایک چیز بنیادی ہے کہ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا کہ ترک وزیرِ اعظم کے احترام میں کسی قسم کی کمی نا ہو۔‘‘
وزیرِ اعظم گیلانی نے اپنے ترک ہم منصب کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائیے میں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربرہان کو مدعو کر رکھا ہے، تاہم سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی شرکت کا معاملہ تاحال زیر غور ہے۔
ترکی 28 رکنی نیٹو تنظیم کا رکن بھی ہے اور اس کے 1,300 سے زائد فوجی افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں میں شریک ہیں۔
اس تناظر میں پاکستانی ذرائع ابلاغ توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ ترک وزیرِ اعظم پاکستانی پارلیمان سے خطاب اور سیاسی قیادت سے ملاقاتوں میں نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کا معاملہ بھی اُٹھائیں گے۔
گزشتہ نومبر سلالہ کی سرحدی چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے نیٹو کے قافلوں پر عائد پابندی کو ختم کرنے کے سلسلے میں پاکستانی اور امریکی عہدے داروں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، جب کہ شکاگو میں نیٹو کے اہم اجلاس کے موقع پر تنظیم کے سربراہ اینڈرس فو راسموسن اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے مابین ملاقات میں بھی یہ موضوع زیر بحث آئے گا۔