’سانپ پالنے والا خود بھی اس کا شکار ہوگا‘

’سانپ پالنے والا خود بھی اس کا شکار ہوگا‘

امریکہ اور پاکستان نے خطے میں پائیدار امن کی خاطر طالبان عسکریت پسندوں سے بات چیت پر اتفاق کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ تشدد پر مائل دہشت گروں کو پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف ٹھکانے قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

جمعہ کو اسلام آباد میں اپنی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر سے باضابطہ مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ تشدد کی راہ ترک نا کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کیوں کہ یہ عناصر معصوم لوگوں کے معمولات زندگی میں خلل ڈال رہے ہیں۔

’’ہم (امریکہ اور اس کے اتحادی) دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہے تاکہ وہ پاکستانی، افغان اور امریکی شہریوں سمیت کسی پر بھی حملہ آور ہو کر اُنھیں ہلاک نا کر سکیں۔‘‘

ہلری کلنٹن نے کہا کہ القاعدہ کے خلاف موثر کارروائیوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ملکوں کو اب اپنی توجہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر عسکریت پسند تنظیموں پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، تاہم امریکی وزیر خارجہ نے اس موقع پر امن بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کا اشارہ بھی دیا۔

’’ہمیں عسکریت پسندوں کو (افغانستان میں) امن عمل میں شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، لیکن اگر یہ کوششیں کار آمد ثابت نہیں ہوتیں تو اُنھیں تشدد جاری رکھنے اور معصوم شہریوں کو ہلاک کرنے سے روکنا ہوگا۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ نے شدت پسند تنظیم حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کے جنگجوؤں نے پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں، اور افغانستان میں ان کے خلاف اتحادی افواج بھرپور کارروائی کر رہی ہیں لیکن امریکہ چاہے گا کہ پاکستان بھی اپنی سرزمین پر موجود ان عناصر کے خلاف مزید کارروئیاں کرے کیوں کہ صرف ایک فریق کی کامیابی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

پاکستان اور افغانستان کی طرف سے ایک دوسرے پر شدت پسندوں کی حمایت کے الزامات سے متعلق اُنھوں نے ایک کہانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’کوئی شخص اس امید کے ساتھ اپنے گھر کے پچھواڑے میں سانپ نہیں پال سکتا کہ وہ صرف اُس کے ہمسائیوں کو ڈسیں گے، کیوں کہ بلآخر وہ سانپ اپنے پالنے والوں پر ہی حملہ آور ہوں گے۔‘‘

نیوز کانفرنس سے خطاب میں پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اس الزام کو مسترد کیا کہ اُن کے ملک کا کوئی ادارہ افغان باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کا ملک افغانوں کی قیادت میں طالبان سے امن و مفاہمت کے عمل اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں امریکہ سے مزید تعاون کرنے کے عزم پر ڈٹا ہوا ہے۔

لیکن حنا ربانی کھر نے واضح کیا کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی کا تعین اس کے اپنے ادارے کریں گے جن میں پارلیمان سب سے بلا دست ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سلسلے میں گزشتہ ماہ ہونے والی کُل جماعتی کانفرنس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد بنیاد کا کردار ادا کرے گی، جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے امن کو موقع دینے پر اتفاق کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اسلام آباد کے دورے کے دوسرے روز پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی۔ اُنھوں نے ایک خصوصی ’ٹاؤن ہال‘ طرز کی تقریب کے توسط سے اپنا پیغام پاکستانی عوام تک بھی پہنچایا اور شرکا کے سوالوں کے جواب دیے۔

جمعرات کی شب اسلام آباد آمد کے بعد وزیر خارجہ کلنٹن نے اپنے اعلیٰ سطحی سیاسی و فوجی وفد کے ہمراہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے تقریباََ چار گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔ امریکی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور افغانستان و پاکستان کے لیے صدر اوباما کے خصوصی نمائندے مارک گراسمین بھی بات چیت میں شامل تھے جب کہ پاکستانی وزیر اعظم کی معاونت کرنے والوں میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کےعلاوہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا بھی شامل تھے۔

اس طویل ملاقات کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدے دار نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بات چیت انتہائی بے تکلف اور مفصل رہی‘‘۔

ہلری کلنٹن پاکستان کا یہ اہم دورہ ایک ایسے موقع پر کر رہی ہیں جب دہشت گردی کےخلاف جنگ کے طریقہ کار پر اختلافات نے دو طرفہ سفارتی تعلقات کو کشیدہ کر رکھا ہے اور بعض مبصرین کے خیال میں امریکی وزیر خارجہ کا دورہ حالات کو بہتر کرنے کی آخری کوشش ہو سکتی ہے۔