پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’’انتہائی اہم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی حالیہ ملاقاتیں بھی اسی تناظر میں ہوئی ہیں مگر دوطرفہ روابط کی بحالی اب بھی پارلیمان میں نظرِثانی کے عمل کی تکمیل سے مشروط ہے۔
مہمند ایجنسی میں سلالہ کے سرحدی مقام پر 26 نومبر کو نیٹو کی فضائی کارروائی میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر سخت ردِعمل میں پاکستان نے جن اقدامات کا اعلان کیا تھا اُن میں پارلیمانی عمل مکمل ہونے تک کسی امریکی عہدیدار کا ملک میں خیر مقدم نا کرنے کا فیصلہ بھی شامل تھا، مگر اس فیصلے پر ڈٹے رہنے کے اعلانات کے باوجود امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز میٹس کا رواں ہفتے دورہِ پاکستان حکومت پر تنقید کا باعث بنا ہے۔
لیکن وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کے موقف کا بھرپور انداز میں دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی و عسکری رہنماؤں کے حالیہ رابطوں کو پاکستان ’’بے حد مفید‘‘ سمجھتا ہے۔
’’پارلیمانی عمل جاری ہے مگر اس دوران امریکہ کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے رکھنا بھی ضروری ہے اور جنرل میٹس کی ملاقاتیں اسی تناظر میں ہوئیں۔‘‘
وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بقول پاکستان اور امریکہ دونوں ہی تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں مگر یہ پارلیمانی عمل مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ اُنھوں نے امید ظاہر کی کہ نظر ثانی کا پارلیمانی عمل جلد از جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
’’یہ پاکستان اور امریکہ کے مابین انتہائی مثبت تعلقات کی بنیاد رکھے گا۔ ہمیں اُمید ہے کہ اس کے نتائج شفاف اور طویل المدتی دوطرفہ تعلقات یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘‘
عبدالباسط نے بتایا کہ افغانستان کے مستقبل سے متعلق مئی میں امریکی شہر شیکاگو میں نیٹو سربراہ اجلاس میں پاکستان کی شرکت کے بارے میں حکومت نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، مگر اُنھوں نے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کی حمایت کرنے کے پاکستانی عزم کو دہرایا۔
’’کابل ہمارے لیے سب سے اہم دارالحکومت ہے اور ہم یقیناً پُر امن اور مستحکم افغانستان کے خوہاں ہیں جس کے لیے ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘‘