نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کو ایک بار پھر ہدف تنقید بنایا۔
امریکی حکام ڈرون حملوں سے قبل ممکنہ اہداف والے علاقوں کے بارے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی ’آئی ایس آئی‘‘ کے ایک فوجی جنرل کو مہینے میں ایک مرتبہ قبل از وقت بذریعہ فیکس تحریری طور پر آگاہ کرتے ہیں۔
یہ انکشاف امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون آپریشن سے آگاہ امریکی عہدے داروں کے مطابق پاکستانی حکام اس پیغام کا جواب نہیں دیتے باوجودیکہ وہ سرکاری طور پر ان میزائل حملوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
’’اس (پاکستان کی خاموشی) بنیاد پر اور اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ پاکستان مکمنہ اہداف والے علاقوں میں فضائی حدود کو بھی مزاحمتوں سے آزاد رکھتا ہے، امریکی حکومت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اُسے ایک خود مختار ملک کی حدود میں ایسے حملوں کی خاموش اجازت حاصل ہے۔‘‘
اخبار لکھتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی کونسل برائے قومی سلامتی اور امریکی ’سی آئی اے‘ کے عہدے داروں نے پاکستان کی رضامندی کے بارے میں خیال آرآئی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ کوئی بھی ایسی معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔
پاکستان میں حکام نے ان تازہ امریکی دعوؤں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منگل کو اپنے خطاب میں صدر آصف علی زرداری نے پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کو ایک بار پھر ہدف تنقید بنایا۔
’’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں کسی بھی ملک سے زیادہ نقصان اُٹھایا ہے...ہمارے علاقے پر ڈرون حملے اور ان میں شہری ہلاکتوں سے اس جنگ کے ذریعے لوگوں کے دل ودماغ جیتنے کی ہماری کوششیں مزید مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔‘‘
االقاعدہ اور اس کے حامی دنیا میں جہاں کہیں بھی موجود ہیں امریکی قانون اُن کے خلاف ڈرون حملوں جیسی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی ناقدین کسی خودمختار ملک کی حدود میں ایسے حملوں کو ناجائز قراردیتے ہیں۔
بعض مبصرین کے خیال میں امریکہ کا پاکستان کو قبل از وقت اہداف کے ممکنہ علاقوں کے بارے میں تحریری طور پرآگاہ کرنے کا مقصد ڈرون حملوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوسکتا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستانی سرزمین پرامریکی ڈرون سے میزائل حملوں کی مہم کے ابتدائی ایام میں ممکنہ اہداف کی فہرست پاکستانی حکام کی رضا مندی سے تیار کی جاتی تھی۔ لیکن چار سال قبل امریکہ نے اکثر ان کارروائیوں کو یکطرفہ طور پر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
گزشتہ سال تک جس نظام کے تحت ڈرون آپریشن کیے جارہے تھے اُس میں سی آئی اے کے حکام پاکستان کی آئی ایس آئی کو ہر ماہ باقاعدگی سے بذریعہ فیکس تحریری طور پر اُس علاقے کے بارے میں آگاہ کرتے جن پر ڈرون طیاروں کی پروازیں متوقع ہوتیں مگر اس میں ٹارگٹ کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا۔
’’آئی ایس آئی اس فیکس پیغام موصل ہونے کی تصدیق کردیتی جسے ڈرون حملوں کی تائید سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مئی 2011ء میں پاکستان کی اجازت کے بغیر اُسامہ بن لادن کے خلاف ابیٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن کے بعد سے آئی ایس آئی نے ڈرون حملوں سے متعلق پیغامات موصول ہونے کی تصدیق کرنے کا سلسلہ بند کردیا۔‘‘
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ جوابی پیغامات کی بندش پاکستانی حکام کی طرف سے اظہار ناراضگی تھا اور آئی ایس ائی کےسربراہ نے یہ راستہ اختیار کیا کیونکہ ڈرون آپریشن کی اجازت نا دینے سے تصادم کا خدشہ تھا جبکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ میزائل حملے پاکستان کے اجازت کے بغیر بھی جاری رہتے۔
یک تازہ جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیرستان کے علاقوں میں جاری ڈرون حملوں کی وجہ سے مقامی آبادی چوبیس گھنٹے خوفزدہ رہتی ہے اور یہ کارروائیاں امریکہ مخالف جذبات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، جبکہ عام شہری بھی ان کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اسٹینفورڈ لاء اسکول اور نیویارک یونیورسٹی اسکول آف لاء کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈرون کے ذریعے کیے جانے والے میزائل حملوں کی وجہ سے علاقے کے لوگ نمازِ جنازہ اور شادی بیاہ سمیت دیگر سماجی پروگراموں میں شرکت سے گریز کرنے لگے ہیں۔
یہ انکشاف امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون آپریشن سے آگاہ امریکی عہدے داروں کے مطابق پاکستانی حکام اس پیغام کا جواب نہیں دیتے باوجودیکہ وہ سرکاری طور پر ان میزائل حملوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
’’اس (پاکستان کی خاموشی) بنیاد پر اور اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ پاکستان مکمنہ اہداف والے علاقوں میں فضائی حدود کو بھی مزاحمتوں سے آزاد رکھتا ہے، امریکی حکومت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اُسے ایک خود مختار ملک کی حدود میں ایسے حملوں کی خاموش اجازت حاصل ہے۔‘‘
اخبار لکھتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی کونسل برائے قومی سلامتی اور امریکی ’سی آئی اے‘ کے عہدے داروں نے پاکستان کی رضامندی کے بارے میں خیال آرآئی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ کوئی بھی ایسی معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔
پاکستان میں حکام نے ان تازہ امریکی دعوؤں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منگل کو اپنے خطاب میں صدر آصف علی زرداری نے پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کو ایک بار پھر ہدف تنقید بنایا۔
’’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں کسی بھی ملک سے زیادہ نقصان اُٹھایا ہے...ہمارے علاقے پر ڈرون حملے اور ان میں شہری ہلاکتوں سے اس جنگ کے ذریعے لوگوں کے دل ودماغ جیتنے کی ہماری کوششیں مزید مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔‘‘
االقاعدہ اور اس کے حامی دنیا میں جہاں کہیں بھی موجود ہیں امریکی قانون اُن کے خلاف ڈرون حملوں جیسی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی ناقدین کسی خودمختار ملک کی حدود میں ایسے حملوں کو ناجائز قراردیتے ہیں۔
بعض مبصرین کے خیال میں امریکہ کا پاکستان کو قبل از وقت اہداف کے ممکنہ علاقوں کے بارے میں تحریری طور پرآگاہ کرنے کا مقصد ڈرون حملوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوسکتا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستانی سرزمین پرامریکی ڈرون سے میزائل حملوں کی مہم کے ابتدائی ایام میں ممکنہ اہداف کی فہرست پاکستانی حکام کی رضا مندی سے تیار کی جاتی تھی۔ لیکن چار سال قبل امریکہ نے اکثر ان کارروائیوں کو یکطرفہ طور پر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
گزشتہ سال تک جس نظام کے تحت ڈرون آپریشن کیے جارہے تھے اُس میں سی آئی اے کے حکام پاکستان کی آئی ایس آئی کو ہر ماہ باقاعدگی سے بذریعہ فیکس تحریری طور پر اُس علاقے کے بارے میں آگاہ کرتے جن پر ڈرون طیاروں کی پروازیں متوقع ہوتیں مگر اس میں ٹارگٹ کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا۔
’’آئی ایس آئی اس فیکس پیغام موصل ہونے کی تصدیق کردیتی جسے ڈرون حملوں کی تائید سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مئی 2011ء میں پاکستان کی اجازت کے بغیر اُسامہ بن لادن کے خلاف ابیٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن کے بعد سے آئی ایس آئی نے ڈرون حملوں سے متعلق پیغامات موصول ہونے کی تصدیق کرنے کا سلسلہ بند کردیا۔‘‘
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ جوابی پیغامات کی بندش پاکستانی حکام کی طرف سے اظہار ناراضگی تھا اور آئی ایس ائی کےسربراہ نے یہ راستہ اختیار کیا کیونکہ ڈرون آپریشن کی اجازت نا دینے سے تصادم کا خدشہ تھا جبکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ میزائل حملے پاکستان کے اجازت کے بغیر بھی جاری رہتے۔
یک تازہ جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیرستان کے علاقوں میں جاری ڈرون حملوں کی وجہ سے مقامی آبادی چوبیس گھنٹے خوفزدہ رہتی ہے اور یہ کارروائیاں امریکہ مخالف جذبات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، جبکہ عام شہری بھی ان کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اسٹینفورڈ لاء اسکول اور نیویارک یونیورسٹی اسکول آف لاء کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈرون کے ذریعے کیے جانے والے میزائل حملوں کی وجہ سے علاقے کے لوگ نمازِ جنازہ اور شادی بیاہ سمیت دیگر سماجی پروگراموں میں شرکت سے گریز کرنے لگے ہیں۔