اسلام آباد —
پاکستان نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ اس نے کسی بھی طور امریکہ کو اپنی سرزمین پر ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔
رواں ہفتے امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے دعویٰ کیا تھا کہ سی آئی اے کی طرف سے پاکستانی سرزمین پرشدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں کی آئی ایس آئی کو تحریری طور پر پیشگی اطلاع کردی جاتی ہے۔
اخبار کے مطابق آئی ایس آئی کے ایک جنرل کو فیکس کے ذریعے مہینے میں ایک مرتبہ یہ معلومات بھیجی جاتی ہیں اور جواب میں پاکستان کی خاموشی کو امریکہ میزائل حملوں کی تائید تصور کرتا ہے۔
لیکن جمعرات کی شب جاری کردہ ایک مختصر بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کے روایتی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملے غیر قانونی، غیر مفید، بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔
’’ایسے حملوں پر امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
پاکستان میں زیادہ تر ڈرون طیاروں سے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مشتبہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس خطے کے ایک قبائلی رہنماء ملک نصر اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مبینہ امریکی میزائل حملوں سے قبائلیوں کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ان کے بقول وزیرستان کے قبائلی مسلسل ڈر اور خوف کے سائے میں رہنے کی وجہ سے ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
’’ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ شادی میں نہیں جا سکتے، کسی جان پہچانے والے کے پاس نہیں جا سکتے، جنازے میں نہیں جا سکتے، جمعہ نماز کے لیے نہیں جا سکتے کیوں کہ ہر وقت لوگ خطرے میں ہیں۔ کاروبار بھی پچاس فیصد رہ گیا ہے۔‘‘
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے جمعرات کو نیویارک میں ایشیاء سوسائٹی کے ایک اجلاس سے خطاب میں قبائلی علاقوں میں امریکی میزائل حملوں کو ایک بار پھر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کو ان کارروائیوں کے مقاصد سے نہیں بلکہ حکمت عملی سے اختلاف ہے۔
پاکستان وزیر خارجہ کے بقول ان کے ملک کی حدود میں امریکی ڈرون طیاروں کی غیرقانونی پروازیں حکومت کی اس دلیل کو کمزور کر دیتی ہیں کہ شدت پسندی کےخلاف لڑی جانے والی جنگ امریکہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی اپنی ہے۔
رواں ہفتے امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے دعویٰ کیا تھا کہ سی آئی اے کی طرف سے پاکستانی سرزمین پرشدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں کی آئی ایس آئی کو تحریری طور پر پیشگی اطلاع کردی جاتی ہے۔
اخبار کے مطابق آئی ایس آئی کے ایک جنرل کو فیکس کے ذریعے مہینے میں ایک مرتبہ یہ معلومات بھیجی جاتی ہیں اور جواب میں پاکستان کی خاموشی کو امریکہ میزائل حملوں کی تائید تصور کرتا ہے۔
لیکن جمعرات کی شب جاری کردہ ایک مختصر بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کے روایتی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملے غیر قانونی، غیر مفید، بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔
’’ایسے حملوں پر امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
پاکستان میں زیادہ تر ڈرون طیاروں سے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مشتبہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس خطے کے ایک قبائلی رہنماء ملک نصر اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مبینہ امریکی میزائل حملوں سے قبائلیوں کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ان کے بقول وزیرستان کے قبائلی مسلسل ڈر اور خوف کے سائے میں رہنے کی وجہ سے ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
’’ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ شادی میں نہیں جا سکتے، کسی جان پہچانے والے کے پاس نہیں جا سکتے، جنازے میں نہیں جا سکتے، جمعہ نماز کے لیے نہیں جا سکتے کیوں کہ ہر وقت لوگ خطرے میں ہیں۔ کاروبار بھی پچاس فیصد رہ گیا ہے۔‘‘
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے جمعرات کو نیویارک میں ایشیاء سوسائٹی کے ایک اجلاس سے خطاب میں قبائلی علاقوں میں امریکی میزائل حملوں کو ایک بار پھر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کو ان کارروائیوں کے مقاصد سے نہیں بلکہ حکمت عملی سے اختلاف ہے۔
پاکستان وزیر خارجہ کے بقول ان کے ملک کی حدود میں امریکی ڈرون طیاروں کی غیرقانونی پروازیں حکومت کی اس دلیل کو کمزور کر دیتی ہیں کہ شدت پسندی کےخلاف لڑی جانے والی جنگ امریکہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی اپنی ہے۔