بعض سیاسی جماعتوں نے حکومت کی اس اسکیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا اعلان پارلیمان میں کسی قسم کی بحث یا وہاں موجود سیاسی جماعتوں کا موقف لیے بغیر ہی کیا گیا ہے۔
اسلام آباد —
نواز شریف حکومت نے ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے حال ہی میں صنعت کاروں کو مراعات اور سہولتیں فراہم کرنے کی ایک اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت نئی صنعت کے قیام یا موجودہ صنعت میں توسیع کے لیے درکار مالی وسائل کے بارے میں ان سے جانچ پڑتال نہیں کی جائے گی۔
یہ چھوٹ سرکاری عہدیداروں کے مطابق یکم جنوری سے قابل عمل ہوگی۔
لیکن بعض سیاسی جماعتوں نے حکومت کی اس اسکیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا اعلان پارلیمان میں کسی قسم کی بحث یا وہاں موجود سیاسی جماعتوں کا موقف لیے بغیر ہی کیا گیا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کی ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے رکن عبدالرشید گوڈیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت کی اس اعلان کردہ اسکیم کو ’’کالا دھن سفید کرنے‘‘ کی اسکیم قرار دیا۔
’’اسکیم دینا تھی تو ان کے لیے لاتے جو سال ہا سال سے ٹیکس دے رہے ہیں۔ آپ کی پالیسی ایسی ہو کہ بیوروکریسی رکاوٹ نا بنے اور ٹیکس لینے والا ادارہ بدعنوانی سے پاک ہو تو ٹیکس نیٹ میں توسیع اور سرمایہ کاری ممکن ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پر قابو پائے بغیر ملک میں سرمایہ کاری یا معیشت کی بحالی ممکن نہیں۔
’’آپ مقابلہ کریں انڈیا سے، سری لنکا سے اور بنگلہ دیش سے آپ کے یہاں زمین کے دام کم ہیں۔ تو اگر زمین کی قیمت سستی ہے تو آپ کی پروڈکشن پر لاگت کم سے کم ہو جاتی ہے۔ تو آپ امن لے کر آئیں۔ تو آپ کے یہاں تو مسئلہ دہشت گردی ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی حکومت کی اس اسکیم کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس سے امیر، امیر تر اور غریب تر ہوگا‘‘۔
عالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جنھوں نے کاروبار کے فروغ سے متعلق اصلاحات مکمل نہیں کیں اور اس اعتبار سے اس کی پوزیشن میں تین درجے تنزلی ہوئی۔ دنیا کے 189 ممالک میں یہ 110 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار شروع کرنا ’’بہت مشکل‘‘ ہے۔
صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات کے ایک اجتماع میں اس اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹ ان افراد کو نہیں دی جائے گی جو کہ اسحلہ سازی، کھاد، سیمنٹ، چینی، آٹا، سگریٹ اور خوردنی تیل بنانے کے کارخانے لگانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری شخصیات سے مستقل بنیادوں پر رابطہ رکھنے کی غرض سے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی کونسل بھی قائم کردی گئی ہے۔
’’چیمبر آف کامرس اور مستند ایسوسی ایشنز کو خصوصی اقتصادی زون بنانے کے لیے آسانیاں دی جائیں گی۔ چاہے وہ باہر سے سرمایہ کار لائیں اگر وہ جگہ کا بتائیں تو زمیں حاصل کرنے میں ان کی معاونت کریں گے۔ پھر معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے کمرشل کورٹس بھی قائم کی جائیں گی۔‘‘
تاہم وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسکیم کا اطلاق اس سرمایے پر نہیں ہوگا جو کہ منشیات اور غیر قانونی طریقے سے رقم کی منتقلی سے کمایا گیا ہو۔ حکومت کی طرف سے اس بات کی اب تک وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا اسے کس طرح یقینی بنایا جا سکے گا۔
ماضی میں بھی وقتاً فوقتاً حکومتوں کی جانب سے ایسے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا جوکہ سرکاری عہدیداروں کے مطابق ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد اور سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے بعد سابق پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے ایسی ہی اسکیم کے نفاذ کو روک دیا تھا۔
یہ چھوٹ سرکاری عہدیداروں کے مطابق یکم جنوری سے قابل عمل ہوگی۔
لیکن بعض سیاسی جماعتوں نے حکومت کی اس اسکیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا اعلان پارلیمان میں کسی قسم کی بحث یا وہاں موجود سیاسی جماعتوں کا موقف لیے بغیر ہی کیا گیا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کی ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے رکن عبدالرشید گوڈیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت کی اس اعلان کردہ اسکیم کو ’’کالا دھن سفید کرنے‘‘ کی اسکیم قرار دیا۔
’’اسکیم دینا تھی تو ان کے لیے لاتے جو سال ہا سال سے ٹیکس دے رہے ہیں۔ آپ کی پالیسی ایسی ہو کہ بیوروکریسی رکاوٹ نا بنے اور ٹیکس لینے والا ادارہ بدعنوانی سے پاک ہو تو ٹیکس نیٹ میں توسیع اور سرمایہ کاری ممکن ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پر قابو پائے بغیر ملک میں سرمایہ کاری یا معیشت کی بحالی ممکن نہیں۔
’’آپ مقابلہ کریں انڈیا سے، سری لنکا سے اور بنگلہ دیش سے آپ کے یہاں زمین کے دام کم ہیں۔ تو اگر زمین کی قیمت سستی ہے تو آپ کی پروڈکشن پر لاگت کم سے کم ہو جاتی ہے۔ تو آپ امن لے کر آئیں۔ تو آپ کے یہاں تو مسئلہ دہشت گردی ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی حکومت کی اس اسکیم کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس سے امیر، امیر تر اور غریب تر ہوگا‘‘۔
عالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جنھوں نے کاروبار کے فروغ سے متعلق اصلاحات مکمل نہیں کیں اور اس اعتبار سے اس کی پوزیشن میں تین درجے تنزلی ہوئی۔ دنیا کے 189 ممالک میں یہ 110 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار شروع کرنا ’’بہت مشکل‘‘ ہے۔
صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات کے ایک اجتماع میں اس اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹ ان افراد کو نہیں دی جائے گی جو کہ اسحلہ سازی، کھاد، سیمنٹ، چینی، آٹا، سگریٹ اور خوردنی تیل بنانے کے کارخانے لگانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری شخصیات سے مستقل بنیادوں پر رابطہ رکھنے کی غرض سے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی کونسل بھی قائم کردی گئی ہے۔
’’چیمبر آف کامرس اور مستند ایسوسی ایشنز کو خصوصی اقتصادی زون بنانے کے لیے آسانیاں دی جائیں گی۔ چاہے وہ باہر سے سرمایہ کار لائیں اگر وہ جگہ کا بتائیں تو زمیں حاصل کرنے میں ان کی معاونت کریں گے۔ پھر معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے کمرشل کورٹس بھی قائم کی جائیں گی۔‘‘
تاہم وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسکیم کا اطلاق اس سرمایے پر نہیں ہوگا جو کہ منشیات اور غیر قانونی طریقے سے رقم کی منتقلی سے کمایا گیا ہو۔ حکومت کی طرف سے اس بات کی اب تک وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا اسے کس طرح یقینی بنایا جا سکے گا۔
ماضی میں بھی وقتاً فوقتاً حکومتوں کی جانب سے ایسے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا جوکہ سرکاری عہدیداروں کے مطابق ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد اور سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے بعد سابق پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے ایسی ہی اسکیم کے نفاذ کو روک دیا تھا۔