پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تاجروں اور کاروباری شخصیات نے بھتہ خوری میں غیر معمولی اضافے سے تنگ آ کراس جرم میں ملوث عناصر کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاجروں کی مقامی تنظیم ’ٹریڈرز ایکشن کمیٹی‘ کا کہنا ہے کہ اگر ایک طرف صوبائی حکومت اُن کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے تو دوسری طرف سراغ رساں ادارے بھی بااثر بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی کرنے سے بظاہر گریزاں نظر آتے ہیں۔
تنظیم کے چیئرمین صدیق میمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”اس میں کچھ سیاسی مصلحتیں ہیں اور کچھ دوسرے معاملات ہیں، لیکن اب تاجر اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اگر کراچی کی معیشت کو بچانا ہے تو اس قسم کے اقدامات کرنا ہوں گے۔“
انھوں نے کہا کہ تاجروں کو بھتے کی عدم ادائیگی کی صورت میں جرائم پیشہ عناصر کی طرف سے جان سے مار دیے جانے جیسی سنگین دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ”پہلے تو ان کے چند گروہ تھے لیکن اب چھوٹے چھوٹے متعدد گروہ کھلے عام مارکیٹوں میں دندناتے پھر رہے ہیں، تاجروں سے پیسہ وصول کر رہے ہیں، اُن کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور اُنھیں کاروبار نہیں کرنے دے رہے۔“
صدیق میمن کا کہنا تھا کہ اس انتہائی پریشان کن صورت حال میں کئی تاجروں نے اپنا کاروبار بند کر دیا ہے جب کہ متعدد اپنی ذمہ داریاں ملازمین کو منتقل کرنے کے بعد روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
’ٹریڈرز ایکشن کمیٹی‘ کے مطابق کراچی کے 580 بازاروں میں ساڑھے چھ لاکھ دکانیں ہیں، اور ان میں سے تقریباً 15 فیصد کے مالکان کو بھتہ خوری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تنظیم کے سربراہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محتاط اندازوں کے مطابق کراچی میں یومیہ پانچ کروڑ روپے بھتے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
کراچی میں حالیہ بد امنی کے لہر کا ذکر کرتے ہوئے صدیق میمن کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک میں خریداری کی شرح میں عموماً چار گنا اضافہ ہو جاتا ہے لیکن حالیہ پرتشدد واقعات کے باعث صارفین بازاروں کا رخ نہیں کر رہے اور رمضان اور عید الفطر کے سلسلے میں منگایا گیا مال گوداموں ہی میں پڑا ہے۔ ”تاجروں کے 100 ارب روپے ڈوب گئے ہیں۔ اس بار جو کاروباری گراف ہے ، وہ 80 فیصد گر چکا ہے اور صرف 20 فیصد کی شرح پر عید کی خریداری جاری ہے۔“
اُنھوں نے کہا کہ اگر رمضان کے بقیہ دنوں میں بھی شہر میں امن و امان کے حالات بہتر نا ہوئے تو کاروباری طبقے کو مزید 60 سے 70 ارب روپے کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔
انتظامیہ ہر سال رمضان اور عید کے موقع پر بازاروں میں حفاظتی اقدامات کے لیے 2,500 پولیس اہلکاروں پر مبنی نفری فراہم کرتی ہے لیکن حالیہ بدامنی کے باعث اس سال یہ نہیں کیا جا سکا ہے اور تاجروں نے اپنی مدد آپ کے تحت 650 نجی گارڈز بازاروں میں تعینات کیے ہیں۔
”تاجروں کا معاشی قتل تو ہو چکا، معاشی طور پر تو انھیں ختم کر دیا گیا ہے، وہ نا چلنے پھرنے اور نا ہی کاروبار کرنے کے لائق ہیں۔ انھیں ہر طریقے سے نقصان پہنچایا گیا ہے اور یہ نقصان ایسا ہے جو ناقابل تلافی ہے جس کا ازالہ تاجر کئی برسوں تک نہیں کر پائیں گے۔“
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کراچی میں بحالی امن کے لیے ”شرپسند عناصر“ اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف ”بلا امتیاز“ آپریشن کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے باوجود عوامی حلقے اور غیر جانبدار مبصرین ان کوششوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
کراچی اتحاد کے صدر عتیق میر بھی امن کی بحالی سے متعلق حکومتی اقدامات کو سنجیدہ تصور نہیں کرتے کیوں کہ اُن کے بقول ”جب تک مخلصانہ طور پر کام نا کیا جائے تو اس کے مثبت اثرات کا سامنے آنا قطعاً ممکن نہیں۔“
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عام شہریوں نے بھی کراچی میں رینجرز اور پولیس کے آپریشن پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو گا جب تک مشتبہ افراد کے خلاف بلا تفریق کارروائی نا کی جائے۔
رینجرز کے ایک اعلیٰ عہدے دار بریگیڈئروسیم ایوب نے بدھ کی شام ایک نیوز کانفرس میں آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کارروائی کے دوران ”اہم دستاویزات“ بھی قبضے میں لی گئیں ہیں جن میں بھتہ خوری کے بارے میں تفصیلی معلومات درج ہیں۔ تاہم اْنھوں نے ان دستاویزات کے بارے میں مزید معلومات دینے سے گریز کیا۔