وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان ابھی ’اسٹیبلائزیشن‘ کے دور سے گزر رہا ہے اس لیے معیشت کی جلد بحالی ممکن نہیں۔
اسلام آباد —
نواز شریف انتظامیہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے اور سرکاری عہدیداروں کے مطابق کوششیں کی جا رہی ہیں کہ سرکاری اخراجات کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم اکٹھی کی جائے۔
اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے محصولات اکٹھے کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ’ایف بی آر‘ میں ہونے والے اجلاس میں عہدیداروں کو ٹیکس وصولی کے مقررہ ہدف کے قریب تر پہنچنے کی ہدایت کی۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں جمعرات کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں صوبائی حکومتوں نے بھی وزارت خزانہ کو بجلی کے بلوں کی مد میں ان کے ذمے واجبات میں سے 25 فیصد وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں کی مد میں صوبوں پر اربوں روپے کی واجبات ہیں اور حالیہ دنوں میں وزارت پانی و بجلی کی طرف سے نا دہندگان کے خلاف ایک مہم کا بھی آغاز کیا، جس میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ سمیت کئی سرکاری اداروں کو بجلی کی ترسیل عارضی طور پر منقطع کر دی گئی تھی۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نواز انتظامیہ کمزور ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے جس سے مجموعی پیداوار اور برآمدات میں اضافے اور مہنگائی میں کمی کے اعتبار سے بہتری دیکھنے میں آئی۔
تاہم بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی جلد بحالی ممکن نہیں۔ وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں۔
’’ہم ابھی اسٹیبلائزیشن کے دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں۔ جب ختم ہو گا تو دیکھا جائے گا۔ انتخابات کے بعد مہنگائی اسٹیٹ بنک کے مطابق پانچ فیصد تھی اب 9 فیصد ہے۔‘‘
اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروانے کی یقین دہانی پر نواز انتظامیہ نے رواں سال بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 6 ارب 70 کروڑ ڈالرز کا قرضہ حاصل کرنے کا معاہدہ کیا جو تین سالوں میں اقساط کی صورت میں مل رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی حاصل کرنا اس کی اولین ترجیح ہے اور حال ہی میں نئے منتخب بھارتی وزیراعظم سے پہلی ملاقات میں بھی نواز شریف نے تجارت و اقتصادی تعاون کے نکات پر زور دیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا نئے بجٹ سے متعلق ایک سیمینار کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا۔
’’ہندوستان بڑا ملک ہے۔ غربت وہاں ہے لیکن اقتصادی طور پر توانا ہے۔ اسی طرح چین بھی۔ اگر ایسی معیشتیں آپ کے ایک اردگرد ہوں اور آپ نحیف و نزار ہوں تو کیا قومی سلامتی و اندونی سلامتی (ممکن ہے؟)۔‘‘
نواز انتظامیہ میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بھی اقتصادی ترقی ناگزیر ہے جبکہ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں پاکستان کو توانائی پر ان کے بقول غیر منصفانہ مراعات کا خاتمہ، ٹیکس کی نیٹ میں توسیع کرنا ہوگی۔
اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے محصولات اکٹھے کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ’ایف بی آر‘ میں ہونے والے اجلاس میں عہدیداروں کو ٹیکس وصولی کے مقررہ ہدف کے قریب تر پہنچنے کی ہدایت کی۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں جمعرات کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں صوبائی حکومتوں نے بھی وزارت خزانہ کو بجلی کے بلوں کی مد میں ان کے ذمے واجبات میں سے 25 فیصد وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں کی مد میں صوبوں پر اربوں روپے کی واجبات ہیں اور حالیہ دنوں میں وزارت پانی و بجلی کی طرف سے نا دہندگان کے خلاف ایک مہم کا بھی آغاز کیا، جس میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ سمیت کئی سرکاری اداروں کو بجلی کی ترسیل عارضی طور پر منقطع کر دی گئی تھی۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نواز انتظامیہ کمزور ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے جس سے مجموعی پیداوار اور برآمدات میں اضافے اور مہنگائی میں کمی کے اعتبار سے بہتری دیکھنے میں آئی۔
تاہم بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی جلد بحالی ممکن نہیں۔ وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں۔
’’ہم ابھی اسٹیبلائزیشن کے دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں۔ جب ختم ہو گا تو دیکھا جائے گا۔ انتخابات کے بعد مہنگائی اسٹیٹ بنک کے مطابق پانچ فیصد تھی اب 9 فیصد ہے۔‘‘
اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروانے کی یقین دہانی پر نواز انتظامیہ نے رواں سال بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 6 ارب 70 کروڑ ڈالرز کا قرضہ حاصل کرنے کا معاہدہ کیا جو تین سالوں میں اقساط کی صورت میں مل رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی حاصل کرنا اس کی اولین ترجیح ہے اور حال ہی میں نئے منتخب بھارتی وزیراعظم سے پہلی ملاقات میں بھی نواز شریف نے تجارت و اقتصادی تعاون کے نکات پر زور دیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا نئے بجٹ سے متعلق ایک سیمینار کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا۔
’’ہندوستان بڑا ملک ہے۔ غربت وہاں ہے لیکن اقتصادی طور پر توانا ہے۔ اسی طرح چین بھی۔ اگر ایسی معیشتیں آپ کے ایک اردگرد ہوں اور آپ نحیف و نزار ہوں تو کیا قومی سلامتی و اندونی سلامتی (ممکن ہے؟)۔‘‘
نواز انتظامیہ میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بھی اقتصادی ترقی ناگزیر ہے جبکہ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں پاکستان کو توانائی پر ان کے بقول غیر منصفانہ مراعات کا خاتمہ، ٹیکس کی نیٹ میں توسیع کرنا ہوگی۔