پاکستان میں جہاں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں میں نہیں جاتے، وہاں ہزاروں گھوسٹ اسکول معاملات کو مزید بدتر بنا رہے ہیں۔ یہ وہ اسکول ہیں جو صرف کاغذات پر اپنا وجود رکھتے ہیں۔ جن کی ایک عمارت ہوتی ہے جسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے یا جسےخستہ حالی کے لیے چھوڑا گیا ہوتا ہے۔
ایک ایسے ہی سکول میں بلیک بورڈ پر ابھی تک کئی سال پرانی لکھی گئی کچھ تحریروں کے نشانات موجود ہیں، لیکن کمرہ اب کلاس روم کی طرح دکھائی نہیں دیتا۔ بچے اور ان کے والدین پریشان ہیں کہ آیا اس عمارت کو کبھی بھی اس کے بنیادی مقصد، یعنی اسکول کے طور پر استعمال کیا جائے گا یا نہیں۔
ایک دیہاتی کا، جس کا نام عظیم ہے، کہنا ہے کہ ہم مقامی عہدے داروں کے پاس چکر لگانے پر پیسہ خرچ کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ یہ اسکول 2016 میں صرف دو روز کے لیے کھلا تھا اور اس کے بعد سے یہ مسلسل بند پڑا ہے۔ ہم 2006 سے اسکول کھلوانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری کوئی نہیں سنتا۔
یہ اس چیز کی ایک نمایاں مثال ہے جو اس پورے علاقے میں گھوسٹ اسکول کے طور پر معروف ہے۔ کسی عمارت کو ایک اسکول کے لیے وقف کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ اس کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ اساتذہ کو اسکول آنے اور تمام قریبی دیہاتوں سے آنے والے بچوں کو پڑھانےکے لیے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ کاغذوں میں ایسے اسکول بڑی کامیابی سے چل رہے ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر وہاں نہ تو کوئی پڑھانے کے لیے جاتا ہے، نہ ہی وہاں طالب علم آتے ہیں اور نہ ہی عمارت کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
ان اسکولوں کو سرکاری طور پر غیر فعال اسکول کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر یا تو بے توجہی یا بد عنوانی کے نتیجے میں اس حالت تک پہنچتے ہیں۔
سرگرم کارکنوں اور این جی اوز کا کہنا ہے کہ ایسے اسکولوں کے لیے مختص کیے گئے فنڈز اکثر اوقات بیوروکریٹس، سیاستدانوں یا مقامی اسکول کے عملے کی جیبوں میں جاتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ سال کے تعلیمی اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ مختلف صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس مسئلے کی درستگی کی کوشش کے بعد بھی ابھی تک کئی ہزار گھوسٹ اسکول اپنا وجود رکھتے ہیں۔
ان غیر فعال اسکولوں میں سے اکثریت سندھ اور بلوچستان میں ہے جہاں لوگ شديد غربت کی حالت میں رہ رہے ہیں اور والدین اپنے بچوں کو ایک بہتر زندگی دینے کے لیے بے تاب ہیں۔
ایک دیہاتی پتنگ خان کا کہنا ہے کہ میں اس گاؤں میں اپنی زمین اور جانوروں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ ہم اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہم بے روزگار ہیں۔ اگر بچے تعلیم حاصل کر لیں تو وہ شہر میں جا سکتے ہیں اور ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے۔ سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ جو بچے اسکول جاتے ہیں انہیں اکثر وہاں بہت ہی کم تر معیار کی تعلیم ملتی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں اس مسئلے کو حل کیے جانے پر بڑے پیمانے پر اتفاق رائے موجود ہے، لیکن اس کے حل کے لیے درکار اقدامات کی رفتار سست دکھائی دیتی ہے۔