پارلیمان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی نمائندگی کرنے والے ارکان نے شدت پسندی سے متاثرہ پٹی میں تعلیم کی خراب ہوتی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن سے تعلیم کے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں مخلوط وفاقی حکومت میں شامل ممبر اخونزادہ چٹان نے کہا کہ فاٹا میں تعلیم کی صورت حال کبھی بھی اچھی نہیں رہی باوجود اس کے کہ یہاں لوگوں میں علم حاصل کرنے کا شعور اور لگن دونوں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2004ء سے پہلے تک تقریبا بیس سے پچیس فیصد بچے پرائمری سے سیکنڈری کی سطح پر تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن پھر کئی تعلیمی اداروں پر طالبان نے قبضہ کر لیا یا تباہ کر دیے۔
‘‘ایک سو دس کےقریب اسکول تو صرف میرے علاقے باجوڑ میں تباہ ہوئے’’۔
اخونزادہ نے الزام عائد کیا کہ سکیورٹی فورسز نے کئی تعلیمی ادارے شدت پسندوں سے خالی کروا کے اپنی تحویل میں لیے ہیں جو اب درس وتدریس کے لیے دستیاب نہیں۔
‘‘باجوڑ میں ہائی اسکول سکیورٹی فورسز کے قبضے میں ہے نوازئی کا ڈگری کالج بھی ان کے ہی قبضے میں ہے’’۔
اخونزادہ کے مطابق اس وقت فاٹا میں 95 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
فاٹا ہی سے منتخب ایک اور ممبر قومی اسمبلی منیر خان اورکزئی کا کہنا ہے کہ فاٹا میں تعلیم کے شعبے کی موجودہ زبوں حالی کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار رہا۔
‘‘گذشتہ سالوں کے دوران فاٹا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور طب کی تعلیم کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے قائم کرنے کے وعدے کیے گئے لیکن پورے نہیں کیے گئےاور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ساٹھ لاکھ سے زائد آبادی کی قبائلی پٹی میں کوئی ایک بھی سرکاری یا نجی یونیورسٹی نہیں ہے’’۔
فاٹا سے تعلق رکھنے والے ممبران کا کہنا تھا کہ وہ اپنے علاقے میں شعبہ تعلیم کی تنزلی کے مسئلے کو پارلیمان سمیت مختلف قومی فورموں پر اٹھا چکے ہیں لیکن معاملہ بدستور توجہ کا طالب ہے۔