پاکستان کی 63 سالہ تاریخ میں تعلیم کا شعبہ بیشتر عرصے عدم توجہ کا شکار رہا ہے اور 2010ء بھی ماضی سے مختلف نہیں تھا۔تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرح خواندگی 57 فیصد ہے۔
گذشتہ برس سرکاری سطح پر ہونے والے سماجی اور رہن سہن کے انداز سے متعلق جائزے میں کہا گیا ہے کہ خواندہ افراد میں مردوں کی شرح 69 اور خواتین کی 45 فیصد ہے، جب کہ ملک بھر کے اسکولوں میں اندراج شدہ بچوں میں طلباء کی تعداد طالبات سے زیادہ ہے۔اقتصادی جائزے 2009-10ء کے مطابق ملک بھر میں سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جب کہ ان تعلیمی اداروں کا ماحول بھی ناموزوں ہے۔
ٓاقتصادی بحران
2010ء میں غیر مستحکم اقتصادی صورتحال نے پاکستان میں درس و تدیس کے نظام پر مزید تباہ کن اثرات مرتب کیے اور معاشی مسائل میں گھری حکومت نے حالات سے نمٹنے کی خاطر جب سرکاری اخراجات میں کمی کا فیصلہ کیا تو اس کی زد میں آنے والے شعبوں میں یہ سر فہرست تھا۔
سال کے وسط میں پیش ہونے والے وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کمیشن (ایچ ای سی) کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 15.7 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی جو گذشتہ برس کی نسبت 30 فیصد کم تھی۔بجٹ میں اس کٹوتی اور رقم کی فراہمی میں تاخیر سے ناصرف جامعات میں تحقیق کا عمل اور توسیعی منصوبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں بلکہ کمیشن کی طرف سے دیے جانے والے وظیفوں پر بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں ا سکالرز کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
سیلاب
موسم گرما میں آنے والے غیر معمولی سیلاب کے بعد حکومت نے متاثرہ افراد کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے درکار مالی وسائل اکٹھے کرنے کے سلسلے میں ایچ ای سی کے فنڈز میں مزید کمی کا عندیہ بھی دیا لیکن ستمبر کے اواخر میں 70 سے زائد سرکاری جامعات کے سربراہان کی طرف سے ہڑتال اور بیک وقت مستعفی ہونے کی دھمکی نے حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا۔
پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب سے جہاں ملک بھر میں دو کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے وہیں نو ہزار سے زائد اسکول تباہ ہوئے یا اُن کو جزوی نقصان پہنچا۔ مختلف اضلاع میں تقریباً 5,800 اسکولوں کا عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال بھی درس و تدیس کے عمل میں رکاوٹ بنا۔
شدت پسندی کے اثرات
2010ء میں ملک کے شمال مغربی صوبے خیبر پختون خواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے بھی تعلیمی اداروں، خصوصاً طالبات کے لیے قائم اسکولوں، کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں اور کئی عمارتوں کو بارودی مواد کے ذریعے کلی یا جزوی طور پر تباہ کر دیا۔ان علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں سے ا سکولوں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی تعداد میں کمی بھی دیکھنے میں آئی۔
انتہا پسند طالبان نے سال کے دوران ناصرف تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا بلکہ اس نظام سے وابستہ ماہرین کے قتل و اغوا میں بھی ملوث رہے۔ شعبہ تعلیم کو ایک شدید دھچکا اْس وقت لگا جب سوات اسلامک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد فاروق کو نامعلوم مسلح افراد نے اکتوبر کے مہینے میں مردان میں اْن کے کلینک کے اندر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
ڈاکٹر فاروق اعتدال پسند ماہرین تعلیم میں شمار کیے جاتے تھے اور وہ ایک بحالی مرکز کے سربراہ بھی تھے طالبان جنگجوؤں کی طرف سے خودکش حملوں کے لیے تیار کے جانے والے بمبارو ں کی اصلاح کے لیے سوات میں قائم کیا گیا ہے۔صوبائی دارالحکومت پشاور کی تاریخی درس گاہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے مغوی سربراہ اجمل خان کو تین ماہ سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود بازیاب نہیں کرایا جا سکا ہے۔
بلوچستان میں تشدد کی لہر کے اثرات
پاکستان میں 2010ء میں تعلیم کے شعبے کو سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں پہنچا جہاں اساتذہ کو خاص طور پر سب سے زیادہ خطرات کا سامنا رہا اور انھیں لسانی بنیادوں پر ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بلوچ عسکریت پسندوں کی ان مہلک کارروائیوں کا نشانہ بننے والے بیشتر اساتذہ کا تعلق ملک کے دوسرے صوبوں سے تھا۔
پاکستان کے اس پسماندہ ترین صوبے میں امن و امان کی دن بدن بگڑتی صورتحال کے باعث اساتذہ کی اکثریت یہاں سے تبادلے کی خواہاں ہے۔بلوچستان میں ملک کے دوسرے صوبوں کی نسبت خواندگی کی شرح پہلے ہی سب سے کم ہے۔
سال کے اواخر میں نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی علم بردار غیر سرکاری تنظیم نے بلوچستان پر اپنی ایک مفصل جائزہ رپورٹ میں متنبہ کیا کہ شورش زدگی سے پاکستانی صوبے میں تعلیم کے مستقبل کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ”بلوچستان میں اساتذہ اپنے جان پر کھیل کر درس وتدریس کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔“
ناقدین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں بہتری لانے کے لیے حکومت کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ اور شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیے مالی وسائل میں مسلسل اضافہ انتہائی ضروری ہے۔
حکومتِ پاکستان، بین الاقوامی اداروں اور اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک کی مجموعی مقامی پیداوار کا محض 2.1 فیصد تعلیم کے فروغ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ خطے میں بنگلادیش وہ واحد ملک ہے جہاں شرح خواندگی اور شعبہ تعلیم کے لیے مختص مالی وسائل پاکستان سے بھی کم ہیں۔
وفاقی کابینہ نے گذشتہ سال ستمبر میں قومی تعلیمی پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت 2015ء تک شعبہء تعلیم کے لیے مختص رقم کو بڑھا کر ملک کی مجموعی مقامی پیداوار کے سات فیصد کے برابر لانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ تعلیم کا فروغ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں غربت کے خاتمے اور انسانی و اقتصادی ترقی کے حصول کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔