قومی کمیشن برائے انصاف و امن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ نصاب میں مذہبی تعصبات کی شمولیت کے باعث سماجی رویوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ’نفرت انگیز‘ کلمات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
یہ انکشاف ’قومی کمیشن برائے انصاف و امن‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے حال ہی میں جاری کی گئی اپنی نئی جائزہ رپورٹ میں کیا ہے۔
کمیشن کے ایکزیگٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئی کتب میں مذہبی تعصبات سے متعلق مواد کی شرح ماضی کی نسبت تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔
’’2011ء میں پنجاب میں (پڑھائی گئی کتب میں) اگر 11 اسباق ایسے تھے جس میں نفرت انگیر مواد پایا جاتا تھا تو 2012ء میں جو کتب آئی ہیں اس میں ایسے 33 اسباق ہیں ... سندھ میں قدرِ کم لیکن کم و بیش اسی طرح کا رجحان موجود ہے۔‘‘
پیٹر جیکب نے پنجاب میں جماعت نہم میں پڑھائی جانے والی مطالع پاکستان کی کتاب سے اقتباس سناتے ہوئے کہا کہ ’’ہندو مسلمانوں کو مساوی درجہ دینے کو کبھی تیار نا تھے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ تمام معاشروں میں اقلیتوں کے حوالے سے اونچ نیچ پائی جاتی ہے، لیکن اس کو کسی خاص مذہب سے جوڑنا درست نہیں۔
اُن کے بقول پاکستانی نصاب میں مذہبی تعصب پر مبنی مواد کی شمولیت کے باعث سماجی رویوں پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
’’جب بچے یہ سبق پڑھ رہے ہوتے ہیں اور ان میں غیر مسلم بھی ہوتے ہیں، اُن میں اس قسم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جن کی آپ سکول میں صحت مند ماحول موجودگی کی توقع نہیں کرتے۔‘‘
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری تنظیم سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ اینڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سینیئر محقق احمد سلیم نے سرکاری درس گاہوں کے نصاب میں مذہب، صنف اور دیگر بنیادوں پر تعصب سے متعلق مواد کی موجودگی کی تصدیق کی۔
اُنھوں نے کہا کہ نصاب میں اصلاحات کی کوششوں کے باوجود نفرت انگیز مواد کی موجودگی مصنفین کی سوچ اور متعلقہ اداروں کی اس سلسلے میں عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔
’’دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم نصابی کتب میں سے تمام نفرت انگیر مواد نکال بھی دیں تو اس کے بعد بھی اساتذہ کی بڑے پیمانے پر تربیت کی ضرورت ہو گی ... اگر اساتذہ کی سوچ وہی رہے گے جو اب تک رہے ہیں تو نئی کتابوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
ناقدین ماضی میں بھی سکولوں کی سطح پر پڑھائی جانے والی کتابوں میں مبینہ نفرت انگیز مواد کی نشاندہی اور اس کو خارج کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، کیوں کہ اُن کے خیال میں یہ مواد بھی پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے رجحان میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
صوبائی وزرائے تعلیم اور دیگر متعلقہ عہدے داروں سے سندھ اور پنجاب میں نصاب سے متعلق غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ پر رد عمل لینے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں، تاہم ماضی میں حکومتی نمائندوں کا موقف رہا ہے کہ نصاب سے متعلق تحفظات کو دور کرنے کے لیے اصلاحات کی کوششیں جاری ہیں۔
یہ انکشاف ’قومی کمیشن برائے انصاف و امن‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے حال ہی میں جاری کی گئی اپنی نئی جائزہ رپورٹ میں کیا ہے۔
کمیشن کے ایکزیگٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئی کتب میں مذہبی تعصبات سے متعلق مواد کی شرح ماضی کی نسبت تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔
’’2011ء میں پنجاب میں (پڑھائی گئی کتب میں) اگر 11 اسباق ایسے تھے جس میں نفرت انگیر مواد پایا جاتا تھا تو 2012ء میں جو کتب آئی ہیں اس میں ایسے 33 اسباق ہیں ... سندھ میں قدرِ کم لیکن کم و بیش اسی طرح کا رجحان موجود ہے۔‘‘
پیٹر جیکب نے پنجاب میں جماعت نہم میں پڑھائی جانے والی مطالع پاکستان کی کتاب سے اقتباس سناتے ہوئے کہا کہ ’’ہندو مسلمانوں کو مساوی درجہ دینے کو کبھی تیار نا تھے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ تمام معاشروں میں اقلیتوں کے حوالے سے اونچ نیچ پائی جاتی ہے، لیکن اس کو کسی خاص مذہب سے جوڑنا درست نہیں۔
اُن کے بقول پاکستانی نصاب میں مذہبی تعصب پر مبنی مواد کی شمولیت کے باعث سماجی رویوں پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
’’جب بچے یہ سبق پڑھ رہے ہوتے ہیں اور ان میں غیر مسلم بھی ہوتے ہیں، اُن میں اس قسم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جن کی آپ سکول میں صحت مند ماحول موجودگی کی توقع نہیں کرتے۔‘‘
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری تنظیم سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ اینڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سینیئر محقق احمد سلیم نے سرکاری درس گاہوں کے نصاب میں مذہب، صنف اور دیگر بنیادوں پر تعصب سے متعلق مواد کی موجودگی کی تصدیق کی۔
اُنھوں نے کہا کہ نصاب میں اصلاحات کی کوششوں کے باوجود نفرت انگیز مواد کی موجودگی مصنفین کی سوچ اور متعلقہ اداروں کی اس سلسلے میں عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔
’’دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم نصابی کتب میں سے تمام نفرت انگیر مواد نکال بھی دیں تو اس کے بعد بھی اساتذہ کی بڑے پیمانے پر تربیت کی ضرورت ہو گی ... اگر اساتذہ کی سوچ وہی رہے گے جو اب تک رہے ہیں تو نئی کتابوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
ناقدین ماضی میں بھی سکولوں کی سطح پر پڑھائی جانے والی کتابوں میں مبینہ نفرت انگیز مواد کی نشاندہی اور اس کو خارج کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، کیوں کہ اُن کے خیال میں یہ مواد بھی پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے رجحان میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
صوبائی وزرائے تعلیم اور دیگر متعلقہ عہدے داروں سے سندھ اور پنجاب میں نصاب سے متعلق غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ پر رد عمل لینے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں، تاہم ماضی میں حکومتی نمائندوں کا موقف رہا ہے کہ نصاب سے متعلق تحفظات کو دور کرنے کے لیے اصلاحات کی کوششیں جاری ہیں۔