پاکستان میں اتوار کو دنیا بھر کی طرح منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد منشیات سے متعلق آگاہی و شعور پیدا کرنا اور اس کے مضر اثرات کی طرف توجہ دلانا ہے۔
پاکستان اس خطے میں واقع ہے جو منشیات کی اسمگلنگ کا اہم روٹ ہے اور افغانستان سے بیرونی دنیا میں منشیات کی نقل و حرکت کی گزرگاہ ہے۔
تاہم پاکستان کے انسداد منشیات کے ادارہ "اے این ایف" اور سکیورٹی فورسز اس غیر قانونی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں اسے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کا بھی تعاون حاصل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 70 لاکھ کے قریب ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔
منشیات کے استعمال کو روکنے کے بارے میں آگہی پھیلانے سے متعلق کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "کریم خان آفریدی ویلفیئر فاؤنڈیشن" کے سرگرم کارکن فیصل لطیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوان افراد پر مشتمل ہے اور ان کے بقول انہیں منشیات سے دور رکھنا نا صر ف حکومت بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک اہم چیلنج ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل لطیف نے کہا کہ جہاں یہ ضروری ہے کہ منشیات کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ منشیات استعمال کرنے والے افراد کی بحالی کے لیے بھی کام کیا جائے۔
انسداد منشیات کے سرکاری ادارے کی طرف سے جاری ایک یبان کے مطابق رواں سال اب تک منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف کی گئی مختلف کارروائیوں کے دوران لگ بھگ 18 ٹن افیون، ساڑھے تین ٹن ہیروئین، 47 ٹن حشیش اور بھاری مقدار میں دیگر منشیات اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا کیمیائی مواد برآمد کیا ہے۔
بیان کے مطابق قبضے میں لی گئی منشیات اور اس کے بنانے میں استعمال ہونے والے مواد کی عالمی منڈی میں قمیت لگ بھگ 83 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔