کمیشن نے پہلی بار قومی احتساب بیورو، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، کوائف کے اندراج کے قومی ادارہ (نادرا)، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک سیل قائم کیا ہے جو کہ امیدواروں کے کوائف کی جانچ پڑتال کرے گا۔
اسلام آباد —
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نئے کاغذات نامزدگی کے مسودے کی اگر صدر مملکت نے بروقت کی منظوری نا بھی دی تو امیدواروں کی جانچ پڑتال موثر طریقے سے ہو گی۔
کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کی جانب سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور مالی کوائف کی جانچ پڑتال میں کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پر یقین ہے کہ وہ اپنے اقدامات کے ذریعے کمیشن کو مزید مضبوط کرے گی۔
’’جانچ پڑتال مضبوط طریقے سے ہوگی۔ آج بھی جو ہمارے پاس اختیارات ہیں حقیقتاً ہمارے لیے کافی و شافی ہیں جو ہمیں (الیکشن کمیشن) کو مزید مضبوط کرے گا لوگوں کے دلوں اور نظروں میں ان کی عزت ہوگی۔‘‘
کمیشن نے آئندہ انتخابات کے لیے صدر زرداری کو امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا ایک ترمیمی مسودہ منظوری کے لیے بھیجا ہوا ہے جس کے تحت حکام کے مطابق امیدواروں سے اثاثوں سے متعلق گزشتہ تین سالوں کی معلومات حاصل کی جائیں گی۔
حکومت کے طرف سے اس پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن کے سینیئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ نئے مسودے کی منظوری نہ ہونے کی صورت میں جانچ پڑتال کے عمل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کمیشن نے پہلی بار قومی احتساب بیورو، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، کوائف کے اندراج کے قومی ادارہ (نادرا)، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک سیل قائم کیا ہے جو کہ امیدواروں کے کوائف کی جانچ پڑتال کرے گا۔
افضل خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئے گا اور کمیشن کے نئے نظام کے تحت آئندہ انتخابات میں صرف عوام میں مقبول افراد ہی کامیاب ہونگے۔
بظاہر خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہم نے پہلی پونے چار کروڑ (جعلی) ووٹ لسٹوں باہر نکلے ہیں جو کہ جعلی پولنگ اسٹیشنز پر فرشتے ڈالا کرتے تھے۔‘‘
پاکستان میں عمومی طور پر خفیہ اداروں پر الزامات لگائیں جاتے ہیں کہ وہ ماضی میں ملک میں ہونے والے انتخابی دھندلیوں میں ملوث رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ سال اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ 90 کی دہائی میں اس وقت کے فوج اور اس کی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان نے بے نظیر بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی کو انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے سے روکنے کے لیے میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی سیاسی انتخابی اتحاد بنایا تھا۔
پانچ سال مکمل کرنے کے بعد قومی اسمبلی کی تحلیل رواں ہفتے متوقع ہے اورملک میں شدت پسندوں کی جارحانہ کارروائیوں سے پیدا ہونے والی بدامنی کی صورتحال کے باوجود فوج سمیت ملک کے تمام اداروں کی جانب سے انتخابات کے بروقت انعقاد کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کی جانب سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور مالی کوائف کی جانچ پڑتال میں کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پر یقین ہے کہ وہ اپنے اقدامات کے ذریعے کمیشن کو مزید مضبوط کرے گی۔
’’جانچ پڑتال مضبوط طریقے سے ہوگی۔ آج بھی جو ہمارے پاس اختیارات ہیں حقیقتاً ہمارے لیے کافی و شافی ہیں جو ہمیں (الیکشن کمیشن) کو مزید مضبوط کرے گا لوگوں کے دلوں اور نظروں میں ان کی عزت ہوگی۔‘‘
کمیشن نے آئندہ انتخابات کے لیے صدر زرداری کو امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا ایک ترمیمی مسودہ منظوری کے لیے بھیجا ہوا ہے جس کے تحت حکام کے مطابق امیدواروں سے اثاثوں سے متعلق گزشتہ تین سالوں کی معلومات حاصل کی جائیں گی۔
حکومت کے طرف سے اس پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن کے سینیئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ نئے مسودے کی منظوری نہ ہونے کی صورت میں جانچ پڑتال کے عمل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کمیشن نے پہلی بار قومی احتساب بیورو، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، کوائف کے اندراج کے قومی ادارہ (نادرا)، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک سیل قائم کیا ہے جو کہ امیدواروں کے کوائف کی جانچ پڑتال کرے گا۔
افضل خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئے گا اور کمیشن کے نئے نظام کے تحت آئندہ انتخابات میں صرف عوام میں مقبول افراد ہی کامیاب ہونگے۔
بظاہر خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہم نے پہلی پونے چار کروڑ (جعلی) ووٹ لسٹوں باہر نکلے ہیں جو کہ جعلی پولنگ اسٹیشنز پر فرشتے ڈالا کرتے تھے۔‘‘
پاکستان میں عمومی طور پر خفیہ اداروں پر الزامات لگائیں جاتے ہیں کہ وہ ماضی میں ملک میں ہونے والے انتخابی دھندلیوں میں ملوث رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ سال اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ 90 کی دہائی میں اس وقت کے فوج اور اس کی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان نے بے نظیر بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی کو انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے سے روکنے کے لیے میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی سیاسی انتخابی اتحاد بنایا تھا۔
پانچ سال مکمل کرنے کے بعد قومی اسمبلی کی تحلیل رواں ہفتے متوقع ہے اورملک میں شدت پسندوں کی جارحانہ کارروائیوں سے پیدا ہونے والی بدامنی کی صورتحال کے باوجود فوج سمیت ملک کے تمام اداروں کی جانب سے انتخابات کے بروقت انعقاد کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔