میں نے لاہور سے سماء ٹی وی کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سے پوچھا کہ سر یہ "محکمہ زراعت" والے کون ہیں؟ انہوں نے اپنا کوٹ اتار کر ہینگر پر لٹکاتے ہوئے میری طرف دیکھا اور جواب دئیے بغیر اپنا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئے تو میں نے دوبارہ پوچھا اچھا سر یہ بتا دیں کہ "جیپ" کا رنگ کیا ہے اور اسے کون چلائے گا؟ لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ کیوں "لڑکی کے بھائیوں" کو میری پیچھے پڑواتے ہو۔
پھر بولے "دیکھو بھئی بات ہے سیدھی سی، اس وقت ایک کوشش یہ جاری ہے کہ سنہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں نواز شریف اور اس کی جماعت مسلم لیگ ن کو دور رکھا جائے اور انہیں آئندہ الیکشن میں کم سے کم سیٹیں ملیں اسی لیے محکمہ زراعت والے جیپ کی پنیری کاشت کر رہے ہیں"
احمد ولید کہتے ہیں کہ ہر الیکشن سے پہلے کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت "کسی" کی پسندیدہ ہوتی ہے لیکن کسی بھی سیاسی حقیقت کو یوں راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا۔
جنگ اخبار کے صحافی احمد نورانی کو مار پڑنے کے بعد جس طرح ٹوئیٹر پر "لڑکی کے بھائیوں" کا ٹرینڈ رہا، آج کل پاکستان میں اسی طرح "محکمہ زراعت" کا ہیش ٹیگ زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔
کالم نگار عمار مسعود نے "محکمہ زراعت کی فصلیں" کے عنوان سے ایک کالم میں لکھا ہے کہ "گرمی ہو یا سردی، جمہوریت ہو یا آمریت اس ملک میں محکمہ زراعت ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔ یہی فیصلہ کرتا ہے کہ کب اس زمین پر کون سی فصل بیجنی ہے۔ یوریا کا کون سا برانڈ زرخیزی کے لیے اب مناسب ہے، کہاں پانی دینا ہے، کہاں زمین کو بنجر کرنا ہے، کہاں بارش برسنی ہے، کہاں بادل آنے ہیں، کہاں گھن گرج ہونی ہے، کہاں سیلاب لانے ہیں، کب پھل کے پکنے کا اعلان کرنا ہے، کب فصل کاٹ لینی ہے اور کب نقصان کے اندیشے کے سبب لگی لگائی فصل کو نذر آتش کر دینا ہے۔"
"محکمہ زراعت" کی اصطلاح ملتان سے مسلم لیگ ن کے پی پی 219 سے امیدوار رانا اقبال سراج کے گودام پر مبینہ طور پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی جانب سے چھاپہ مارنے اور انہیں زدوکوب کرنے کی خبریں سوشل میڈیا پر آنے کے بعد زیر بحث آیا۔ رانا اقبال سراج تاجر ہیں انہوں نے ملتان سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فوجی فرٹیلائزر کمپنی کے جنوبی پنجاب کے مرکزی ڈیلر ہیں اور گزشتہ بارہ سالوں سے ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ رانا اقبال سراج نے بتایا کہ سیاست میں حصہ لینا ان کا جمہوری حق ہے اور انہوں نے سوچ سمجھ کر سنہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
رانا صاحب نے کہا کہ پہلے تو مجھے ڈیلر شپ منسوخ کرنے کی دھمکیاں دی گئی۔ میں نہ مانا۔ پھر"مجھے آئی ایس آئی ملتان دفتر کے کرنل نے تین بار فون کر کے اپنے دفتر بلایا اور ن لیگ کی ٹکٹ واپس کرنے کو کہا۔ میں نے انکار کیا۔ پھر ہفتہ کی شام اچانک ایک دن بغیر نمبر پلیٹ آٹھ ڈبل کیبن گاڑیاں میرے وئیر ہاوس کے اندر اور دس بغیر نمبر پلیٹ گاڑیاں میرے گودام کے باہر آ کر رکیں۔ جس میں سوار تمام افراد اسلحہ بردار تھے۔ انہوں نے آتے ہی میرے وئیر ہاوس کو اندر سے بند کیا اور مارنا شروع کر دیا۔ انہوں نے ڈھائی گھنٹے ہمیں مارا۔ نواز شریف سے میری فون پر بات ہونے اور معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد دوبارہ آئی ایس آئی کے اسی کرنل کا فون آیا اور اس نے کہا کہ کہو تمام افراد "محکمہ زراعت" کے تھے۔ تو بھائی میں نے یہ بیان دے دیا کیونکہ اب اور مار کھانے کی ہمت نہیں تھی"۔
رانا اقبال سراج نے وائس آف امریکہ کو بتایا آئی ایس آئی کے اسی کرنل نے مظفر گڑھ میں اور دیگر دوستوں کو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ واپس کرنے کو کہا ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب ملتان کے ترجمان نوید احمد نے اقبال سراج کے گودام پر چھاپے کی تردید کرتے ہوئے وائس آف امریکہ سے کہا کہ ان کا محکمہ ایسی کسی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوتا۔
"ڈائریکٹر فرٹیلائزر اور ان کا تمام محکمہ کسی بھی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتا۔
مسلم لیگ ن سے خائف رہنما چوہدری نثار احمد سنہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں این اے 59، این اے 63، پی پی 10 اور پی پی 12 سے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کا انتخابی نشان جیپ ہے۔ اسی طرح این اے 133 سے زٰعیم قادری، این اے 193 اور پی پی 293 سے شیر علی گورچانی، پی پی 295 سے پرویز گورچانی، پی پی 294 سے اطہر گورچانی، پی پی 296 سے یوسف خان دریشک، این اے 194 سے ڈاکٹر حفیظ دریشک، این اے 181 سے سلطان محمود ہنجرا، این اے 88 سے راو طاہر مشرف، پی پی 75 سے غلام دستگیر لک، پی پی 76 سے سجاد حیدر، پی پی 74 سے سردار شوکت علی صفدر، پی پی 77 سے محمد افضل، پی پی 81 سے میاں یوسف اور پی پی 78 سے محمد اسلم اب تک جیپ پر سوار ہو چکے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں جیپ کے نشان پر امیدواروں کی تعداد بڑہتی جا رہی ہے۔ سجاگ کی رپورٹ کے مطابق اب تک 47 امیدوار جیپ کے نشان پر سوار ہو چکے ہیں۔