|
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی میں پاکستان کے انتخابات سے متعلق سماعت کے دوران امریکی معاون وزیرِ خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے کہا ہے پاکستان کے اندر حالیہ انتخابات کے لیے امریکہ نے فری اینڈ فئیر کی اصلطلاح کبھی استعمال نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے اور پولنگ کے بعد بے ضابطگیوں کی انتخابی مبصرین نے شکایات کی ہیں جس کی تحقیقات پاکستان کا الیکشن کمیشن کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کے جمہوری اور جائز ہونے کا تعلق انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے نیجے سے ہے۔
اس سماعت کو 'پاکستان انتخابات کے بعد؛ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کا جائزہ اور پاکستان، امریکہ تعلقات' کا عنوان دیا گیا ہے۔
یہ سماعت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب نہ صرف پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں بلکہ امریکہ میں بھی دو درجن سے زائد ارکانِ کانگریس نے ان انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ اور صدر بائیڈن سے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ جب تک انتخابی عمل سے متعلق شفاف تحقیقات نہیں ہو جاتیں، نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
ڈونلڈ لو کون ہیں؟ اورسائفر کیا تھا؟
ڈونلڈ لو امریکہ کے معاون وزیرخارجہ برائے جنوبی و ایشیائی امور ہیں۔ وہ تقریباً تیس برس قبل پاکستان کے اندر بطور جونیئر ڈپلومیٹ خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کانام تقریباً دو سال قبل اس وقت میڈیا میں بہت لیا جانے لگا جب پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی پر وزارت عظمی کے عہدے سے ہٹائے جانے والے تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کو بیرونی دباؤ کی وجہ سے حکومت سے ہٹایا گیا۔
ایک ریلی میں انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعوی کیا کہ یہ وہ سائفر ہے جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ اس سائفر میں، عمران خان کے دعوے کے مطابق، پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے تحریر کیا تھا کہ ڈونلڈ لو نے ان سے ایک ملاقات کے دوران غیر سفارتی انداز میں گفتگو کی اور دعویٰ کیا کہ ڈونلڈ لو نے دھمکی دی کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم استحکام کامیاب نہیں ہوتی تو پاکستان کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
بعد ازاں پرائم منسٹر ہاؤس کی ایک آڈیو لیک میں عمران خان، اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے سائفر پر بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں اس سائفر سے کھیلا جائے گا۔
سائفر کے اپنے سیاسی مقاصد کے استعمال پر عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر مقدمہ چلا اور انہیں سزائیں دی گئیں۔
سن 2022 میں نو اور 10 اپریل کی درمیانی شب پاکستان کی قومی اسمبلی نے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد منظور کی تھی۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے خاتمے کے بعد شہباز شریف وزیرِ اعظم بن گئے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اس سے قبل بھی ’رجیم چینچ‘ میں کسی کردار کی تردید کی تھی۔ بدھ کو ہونے والی سماعت میں ڈونلڈ لو نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ انہوں نے یا امریکہ کے کسی عہدیدار یا کانٹریکٹر نے پاکستان کے اندر عمران حکومت کی تبدیلی میں کوئی کردار ادا نہیں کہا۔
سائفر سے متعلق الزامات اور دھمکیاں
امریکی معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے امریکی کانگریس میں پاکستان سے متعلق ہونے والی سماعت کے دوران کہا کہ اس وقت جب عمران خان کی حکومت گرانے کے الزامات لگائے جا رہے تھے، مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
اُں کا کہنا تھا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تشدد اور دھمکیوں کی نوبت آ جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول پاکستان کے سفیر سے ملاقات میں ایک شخص اور بھی موجود تھا جس سے اس ملاقات کے بارے میں گواہی لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔
سماعت کے دوران نعرے بازی اور شور شرابہ
امریکی ایوانِ نمائندگان میں پاکستان سے متعلق سماعت کے دوران کمرے میں ایک موقع پر نعرے بازی اور شور شرابہ شروع ہو گیا جس پر سماعت روکنا پڑی۔
کمیٹی کے ارکان نے ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد کو کمرے سے نکالنے کی ہدایت کی۔ اس دوران بعض افراد نے 'فری عمران خان' کے نعرے بھی لگائے۔
شور اور نعرے بازی کرنے والے افراد کو کمرے سے نکالنے کے بعد پاکستان سے متعلق سماعت دوبارہ شروع ہو گئی۔
انتخابی نتائج بدلنے کے الزامات پر کئی امریکی ارکان کانگریس کی تشویش
امریکی کانگریس کے کئی اراکین نے پاکستان کے عام انتخابات میں مبینہ دخل اندازی اور دھاندلی کے الزامات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ بعض ارکان نے امریکی محکمۂ خارجہ سے کہا کہ ان الزامات کی مکمل تحقیقات ہونے تک الیکشن کے نتائج تسلیم نہ کیے جائیں۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی فارن افیئرز کمیٹی کی رکن سوزن وائلڈ نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت ہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑی ہو۔
SEE ALSO: الیکشن میں مبینہ دھاندلی پر امریکی ارکانِ کانگریس کا خط؛ کیا پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوں گے؟انہوں نے کہا کہ امریکہ اس وقت تک کسی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کر سکتا جب تک یہ واضح نہ ہو جائے کہ پاکستان میں جمہوریت کا بول بالا ہے۔
ریاست نواڈا کی ایوانِ نمائندگان کی رکن سوزی لی نے کہا ہے کہ وہ امریکی محکمۂ خارجہ سے ہونے والے اس مطالبے میں اپنی آواز بھی شامل کرتی ہیں کہ ان انتخابات میں فراڈ کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائیں۔
ٹیکساس سے منتخب رکنِ کانگریس جیسمین کروکیٹ، گریگ کاسار، یاکین کاسترو اور ویرونیکا ایسکوبار اور مشی گن کی الیسا سلوٹکن اور جان جیمز نے بھی اپنے بیانات میں پاکستانی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
SEE ALSO: پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کی کامیابی؛ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز کیوں ہے؟پاکستانی انتخابات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے
ڈونلڈ لو نے کمیٹی میں پیشی سے قبل جمع کرائے گئے اپنے تحریری بیان میں بتایا ہے کہ وہ 31 برس قبل جب پشاور میں بطور جونیئر افسر تعینات تھے تو انہوں نے پاکستان کے انتخابات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔
رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق ڈونلڈ لو نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات کی نگرانی کے لیے پانچ ہزار سے زائد آزاد مبصرین موجود تھے اور مبصرین کی تنظیموں نے نتیجہ اخذ کیا کہ آٹھ فروری کے انتخابات بڑی حد تک مسابقتی اور منظم تھے۔ البتہ انتخابی نتائج مرتب ہونے کے عمل میں بعض بے ضابطگیاں دیکھی گئیں۔
ڈونلڈ لو نے کہا کہ الیکشن کے روز مقامی انتخابی نگران تنظیموں نے کہا کہ انہیں ملک بھر میں آدھے سے زیادہ حلقوں پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کی نگرانی سے روک دیا گیا جب کہ ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود حکام نے موبائل ڈیٹا سروس بند کر دی جس کا مقصد پاکستانیوں کی سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپلی کیشنز تک رسائی کو روکنا تھا۔
SEE ALSO: ڈیپ فیکس، انٹرنیٹ تک رسائی میں کمی نے پاکستان میں انتخابی کوریج کو مشکل بنایا، صحافتی تنظیمیںالیکشن سے قبل تشدد اور زیادتیاں ہوئیں
انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل ہونے والے تشدد اور انتخابی زیادتیوں پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، کیوں کہ سیاست دانوں سمیت سیاسی اجتماعات اور پولیس پر حملے ہوئے اور کئی صحافیوں خاص طور پر خواتین صحافیوں کو سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی جانب سے ہراساں بھی کیا گیا۔
ڈونلڈ لو نے کہا کہ کئی سیاسی رہنما خود کو مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ رجسٹر نہیں کرا سکے۔
چھ کروڑ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے
ڈونلڈ لو نے کہا کہ پاکستان کے انتخابات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ تشدد کے خطرے کے باوجود چھ کروڑ سے زائد شہریوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا جس میں دو کروڑ سے زائد خواتین تھیں جب کہ ووٹرز نے 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں پچاس فی صد زیادہ خواتین کو منتخب کیا۔
امریکی سفارت کار نے کہا کہ پاکستان میں ریکارڈ تعداد میں مذہبی اقلیتوں اور نوجوانوں نے پارلیمنٹ کی نشستوں پر انتخاب لڑا۔
SEE ALSO: انتخابات میں مبینہ دھاندلی: عمران خان آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے، پی ٹی آئیامریکہ پاکستان کو پرامن، جمہوری اور خوش حال ملک دیکھنا چاہتا ہے۔
ڈونلڈ لو نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے اور ہم پاکستان کی برآمدات وصول کرنے والے بڑوں ملکوں میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام ایک پرامن، جمہوری اور خوش حال ملک کے مستحق ہیں اور ہم اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔
امریکی سفارت کار نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے امورِ خارجہ کی ذیلی کمیٹی کی قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا۔