الیکشن کمیشن نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ضروری قانون سازی کے لیے تیاری کرے تاکہ انتخابات کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک فعال نظام وضع ہو سکے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پیر کو سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وقت اور وسائل کی کمی کے پیش نظر بیرون ملک مقیم 45 لاکھ پاکستانیوں کو دو ہفتوں کے بعد ہونے والے انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی سہولت فراہم نہیں کی جا سکے گی۔
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب ایک طرف تو الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت 11 مئی کو قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کی نشتوں کے لیے انتخابات کے محفوظ، آزادانہ اور شفاف انعقاد کی یقین دہانیاں کروا رہی ہے تو دوسری جانب شدت پسندوں کے حملوں کے پیش نظر چند حلقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں کمی کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
وفاق کے وکیل نے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو بتایا کہ انھوں نے چیف الیکشن کمشنر سمیت کمیشن کے چاروں اراکین سے ملاقاتیں کی جن میں تمام عہدیداروں نے متفقہ طور پر عدالت عظمیٰ کے احکامات کے مطابق اس کام کو پورا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کمیشن نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ اس بارے میں ضروری قانون سازی کے لیے تیاری کرے تاکہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک فعال نظام وضع ہو سکے۔
سینئیر قانون دان اکرم شیخ حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ بیس سال بعد بھی یہ اس حکم پر عمل درآمد نہیں کر سکے۔ اوورسیز پاکستانی کسی پٹواری یا جاگیر دار کے زیر اثر نہیں ہے اور اگر وہ اپنا حق استعمال کرے گا تو ملکی سیاست میں خوش آئین تبدیلی آسکتی ہے۔‘‘
پاکستان کے آئین کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے تاہم دوسرے ملک کی بھی شہریت رکھنے والے پاکستانی پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے۔
حال ہی میں کئی سابق قانون سازوں کو اپنی دوہری شہریت چھپانے کے جرم میں عدالتوں سے قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔
گزشتہ دو سالوں سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور کئی بار حکومت اور الیکشن کمیشن کے حکام عدالت اور عدالت کے باہر اس سے متعلق درپیش دشواریوں کا بھی اظہار چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی معروف کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو حکومت کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
’’ہماری عدالتوں کا یہ رویہ بن گیا ہے کہ وہ ایک بات پر اڑ جاتی ہیں وہ ان کے اثرات و نتائج یا مجبوریاں کو نہیں دیکھتیں... یہ تو بچہ بھی جانتا ہے حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے ایک ہفتے یا ایک مہینے میں ممکن نہیں۔ اب تو دیگر ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ (عدلیہ) ہر چیز کو اپنے ذمے لینا چاہتی ہے۔‘‘
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے متعلق وفاقی حکومت کے جواب کے بعد عدالت نے اس معاملے کو نمٹاتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت سے متعلق کوششیں جاری رکھیں۔
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب ایک طرف تو الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت 11 مئی کو قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کی نشتوں کے لیے انتخابات کے محفوظ، آزادانہ اور شفاف انعقاد کی یقین دہانیاں کروا رہی ہے تو دوسری جانب شدت پسندوں کے حملوں کے پیش نظر چند حلقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں کمی کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
وفاق کے وکیل نے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو بتایا کہ انھوں نے چیف الیکشن کمشنر سمیت کمیشن کے چاروں اراکین سے ملاقاتیں کی جن میں تمام عہدیداروں نے متفقہ طور پر عدالت عظمیٰ کے احکامات کے مطابق اس کام کو پورا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کمیشن نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ اس بارے میں ضروری قانون سازی کے لیے تیاری کرے تاکہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک فعال نظام وضع ہو سکے۔
سینئیر قانون دان اکرم شیخ حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ بیس سال بعد بھی یہ اس حکم پر عمل درآمد نہیں کر سکے۔ اوورسیز پاکستانی کسی پٹواری یا جاگیر دار کے زیر اثر نہیں ہے اور اگر وہ اپنا حق استعمال کرے گا تو ملکی سیاست میں خوش آئین تبدیلی آسکتی ہے۔‘‘
پاکستان کے آئین کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے تاہم دوسرے ملک کی بھی شہریت رکھنے والے پاکستانی پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے۔
حال ہی میں کئی سابق قانون سازوں کو اپنی دوہری شہریت چھپانے کے جرم میں عدالتوں سے قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔
گزشتہ دو سالوں سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور کئی بار حکومت اور الیکشن کمیشن کے حکام عدالت اور عدالت کے باہر اس سے متعلق درپیش دشواریوں کا بھی اظہار چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی معروف کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو حکومت کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
’’ہماری عدالتوں کا یہ رویہ بن گیا ہے کہ وہ ایک بات پر اڑ جاتی ہیں وہ ان کے اثرات و نتائج یا مجبوریاں کو نہیں دیکھتیں... یہ تو بچہ بھی جانتا ہے حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے ایک ہفتے یا ایک مہینے میں ممکن نہیں۔ اب تو دیگر ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ (عدلیہ) ہر چیز کو اپنے ذمے لینا چاہتی ہے۔‘‘
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے متعلق وفاقی حکومت کے جواب کے بعد عدالت نے اس معاملے کو نمٹاتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت سے متعلق کوششیں جاری رکھیں۔