چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کے کمیشن اور اس کے اراکین کے خلاف الزامات ’’بے بنیاد، مبہم اور غیر مصدقہ‘‘ ہیں۔
اسلام آباد —
تحریک منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جمعرات کو سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تعیناتی آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق نہیں ہوئی اس لیے اس کی تشکیل نو کے احکامات جاری کیے جائیں۔
اپنی درخواست میں عدالت اعظمیٰ سے انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ موجودہ الیکشن کمیشن کو کام کرنے سے روکتے ہوئے اس پر حکم امتناعی جاری کیا جائے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت کمیشن کے اراکین کی تعیناتی صرف پارلیمانی کمیٹی کی توثیق کے بعد ہی عمل میں آسکتی ہے جبکہ موجودہ ارکان آئین کے اس بنیادی عمل سے نہیں گزرے اس لیے ان کی تعیناتی ’’خلاف آئین اور قانون‘‘ ہے۔
’’حزب اختلاف اور حکومت میں مک مکا کے تحت پارلیمانی کمیٹی نے کسی ایک رکن کو سماعت کے لیے نہیں بلایا۔ آئین کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی اور آپس میں طے شدہ فارمولے کے تحت ایک ایک رکن کی تعیناتی کی توثیق پر صدر مملکت نے انہیں مقرر کردیا۔‘‘
طاہر القادری نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ’’آئین کے اصول کو توڑا گیا ہے اس لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہونی چاہیے۔ اس کمیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘
اس پہلے بھی تحریک منہاج القران کے قائد چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ، دیگر چار اراکین پر اعتراض کرتے ہوئے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ارکان صوبائی حکومتوں کے مقرر کردہ ہیں اس لیے اندیشہ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں متعلقہ حکمران جماعتوں کو فائدہ پہنچائیں۔
تاہم چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن اور اس کے اراکین کے خلاف سیاسی رہنماؤں کی جانب سے الزامات کو ’’بے بنیاد، مبہم اور غیر مصدقہ‘‘ قرار دے کر مسترد کردیے۔
انہوں نے کہا کہ ان سیمت کمیشن کے تمام اراکین کی تقرری آئین میں موجود شقوں کے عین مطابق ہوئی ہے۔ سابق جج فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا تھا کہ انتخابات سے چھ ہفتے قبل کمیشن کے اراکین پر سیاسی وابستگیوں کے الزامات انتہائی بد قسمتی ہے کیونکہ ان الزامات کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
ان کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کو نہ صرف بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے بلکہ اس سے عوام کے انتخابی عمل پر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔
’’مجھے اپنے ساتھیوں اور عملے کی دیانت داری، خود مختاری اور قابلیت پر مکمل یقین ہے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف آزاد و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ میں صرف تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کمیشن کی معاونت کریں بجائے اس پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگانے کے۔‘‘
1947ء میں پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ کوئی منتخب سیاسی حکومت اور پارلیمان اپنے پانچ سال کی میعاد مکمل کرنے جا رہی ہے اور انتخابات متفقہ طور پر مقرر چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی مئی میں متوقع ہیں۔
حزب مخالف کی ایک اور جماعت عمران خان کی پاکستاں تحریک انصاف بھی الیکشن کمیشن کو ’’کمزور‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی دوبارہ تشکیل کا مطالبہ کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ان کی شکایات کے باوجود کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری فنڈز اور وسائل کو اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرنے کے واقعات کا اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کوئی کارروائی کی ہے۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے جمعرات کو وزیر قانون فاروق نائیک کو آئین اور قانون کی بھرپور پاسداری کی ہدایت کی ہے تاکہ سرکاری بیان کے مطابق انتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز پیدا نہ ہو۔
اپنی درخواست میں عدالت اعظمیٰ سے انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ موجودہ الیکشن کمیشن کو کام کرنے سے روکتے ہوئے اس پر حکم امتناعی جاری کیا جائے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت کمیشن کے اراکین کی تعیناتی صرف پارلیمانی کمیٹی کی توثیق کے بعد ہی عمل میں آسکتی ہے جبکہ موجودہ ارکان آئین کے اس بنیادی عمل سے نہیں گزرے اس لیے ان کی تعیناتی ’’خلاف آئین اور قانون‘‘ ہے۔
’’حزب اختلاف اور حکومت میں مک مکا کے تحت پارلیمانی کمیٹی نے کسی ایک رکن کو سماعت کے لیے نہیں بلایا۔ آئین کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی اور آپس میں طے شدہ فارمولے کے تحت ایک ایک رکن کی تعیناتی کی توثیق پر صدر مملکت نے انہیں مقرر کردیا۔‘‘
طاہر القادری نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ’’آئین کے اصول کو توڑا گیا ہے اس لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہونی چاہیے۔ اس کمیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘
اس پہلے بھی تحریک منہاج القران کے قائد چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ، دیگر چار اراکین پر اعتراض کرتے ہوئے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ارکان صوبائی حکومتوں کے مقرر کردہ ہیں اس لیے اندیشہ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں متعلقہ حکمران جماعتوں کو فائدہ پہنچائیں۔
تاہم چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن اور اس کے اراکین کے خلاف سیاسی رہنماؤں کی جانب سے الزامات کو ’’بے بنیاد، مبہم اور غیر مصدقہ‘‘ قرار دے کر مسترد کردیے۔
انہوں نے کہا کہ ان سیمت کمیشن کے تمام اراکین کی تقرری آئین میں موجود شقوں کے عین مطابق ہوئی ہے۔ سابق جج فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا تھا کہ انتخابات سے چھ ہفتے قبل کمیشن کے اراکین پر سیاسی وابستگیوں کے الزامات انتہائی بد قسمتی ہے کیونکہ ان الزامات کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
ان کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کو نہ صرف بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے بلکہ اس سے عوام کے انتخابی عمل پر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔
’’مجھے اپنے ساتھیوں اور عملے کی دیانت داری، خود مختاری اور قابلیت پر مکمل یقین ہے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف آزاد و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ میں صرف تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کمیشن کی معاونت کریں بجائے اس پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگانے کے۔‘‘
1947ء میں پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ کوئی منتخب سیاسی حکومت اور پارلیمان اپنے پانچ سال کی میعاد مکمل کرنے جا رہی ہے اور انتخابات متفقہ طور پر مقرر چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی مئی میں متوقع ہیں۔
حزب مخالف کی ایک اور جماعت عمران خان کی پاکستاں تحریک انصاف بھی الیکشن کمیشن کو ’’کمزور‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی دوبارہ تشکیل کا مطالبہ کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ان کی شکایات کے باوجود کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری فنڈز اور وسائل کو اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرنے کے واقعات کا اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کوئی کارروائی کی ہے۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے جمعرات کو وزیر قانون فاروق نائیک کو آئین اور قانون کی بھرپور پاسداری کی ہدایت کی ہے تاکہ سرکاری بیان کے مطابق انتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز پیدا نہ ہو۔