پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اتوار کو پولنگ کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
قانون ساز اسمبلی کے 38 انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے کا آغاز اتوار کی صبح ہوا اور سہ پہر پانچ بجے تک جاری رہنے والی پولنگ کے دوران مختلف علاقوں مین انتخابی اُمید واروں کے حامیوں کے درمیان تصادم کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔
پولیس کے مطابق پاکستانی کشمیر کے علاقے مظفرآباد اور بھمبھر کے دو انتخابی حلقوں میں حریف جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔
ووٹر فہرستوں میں غلطیوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات بھی لگائے گئے اور بعض علاقوں میں صورت حال کشیدہ رہی۔
کشمیر کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں 4,300 سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔
کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان کے لاہور میں واقع انتخابی حلقے ایل اے ۔ 37 وادی کشمیر دو میں پولنگ اسٹیشنوں پر مسلم لیگ (ن) اور حکمران پیپلز پارٹی کے حامیوں کے درمیان تصادم کے باعث پولنگ ملتوی کرنا پڑی۔
پاکستانی کشمیر کے الیکشن کمیشن کے مطابق لوگوں نے پولنگ میں بھرپور حصہ لیا تاہم ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ کا باضابطہ اعلان ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔
قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے اندراج شدہ ووٹروں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے، جس میں پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے لگ بھگ سات لاکھ کشمیری مہاجرین بھی شامل ہیں۔
پولنگ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہو چکی ہے اور بعض علاقوں سے غیر حتمی نتائج وصول ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
انتخابات میں حصہ لینے والی بعض سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ سیکورٹی کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے پولنگ کا عمل بد نظمی کا شکار رہا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستانی کشمیر کی 29 انتخابی حلقوں میں 626 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا جن میں ہر ایک پر پولیس پیراملڑی کے چار اہل کار تعینات تھے۔
امن و امان کی کشیدہ صورت حال اور ووٹر فہرستوں میں بوگس ووٹوں کے اندراج کے باعث الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ سے ایک روز قبل مہاجرین مقیم پاکستان کراچی کے دو اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے ایک حلقے کے انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے جس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے اتوار کے روز ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔
اس بار قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں غیر معمولی گہما گہمی دیکھی گئی جس کی وجہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کا اپنی اپنی جماعتوں کے نامزد اُمید واروں کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا۔