مختلف حلقوں میں دھاندلیوں کے الزامات میں اضافہ ہو رہا ہے اور بظاہر سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف ان علاقوں میں ایسے مبینہ واقعات کی شکایات کی جارہی ہیں جہاں انہیں شکست یا کم نشتیں حاصل ہوئیں۔
اسلام آباد —
الیکشن کمیشن میں 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں پر امیدواروں کی جانب سے شکایات جمع کرانے اور اس بارے میں سماعت کا عمل بدھ کو بھی جاری رہا جبکہ دوسری دوسری طرف مختلف بڑے شہروں میں متاثرہ سیاسی جماعتوں نے احتجاجی دھرنے بھی جاری رکھے۔
بڑھتے ہوئے دھاندلیوں کے الزامات کے پیش نظر حکام کے مطابق الیکشن کمیشن کے اعلٰی عہدیدار کوائف کا انداراج کرنے والے قومی ادارے نادرا کے ذریعے متنازع پولنگ اسٹیشنوں یا حلقوں میں ڈالے جانے والے ووٹ کی تصدیق کرانے کے بارے میں ’’سنجیدگی‘‘ سے غور کر رہے ہیں۔
اسی سلسلے میں اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر میں بدھ کو ایک اجلاس ہوا جس میں نادرہ کے چیرمین طارق ملک نے اس متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
نادرا کے تیار کردہ جدید نظام کے تحت حکام کے بقول بیلٹ پیپر پر مخصوص سیاہی سے لگائے گئے انگوٹھے کے نشان سے اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے کہ آیا ووٹ ڈالنے والا وہی شخص ہے جس کے نام پر ووٹ رجسٹر ہوا ہے اور اس طرح جعلی ووٹوں کی نشاندہی ہو سکے گی۔
تاہم نادرا کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا ادارہ تصیدق کا عمل بڑے پیمانے پر فوری طور پر مکمل نا کر سکے۔
’’ہمارے پاس وہ سسٹم نہیں کہ یہ سب بڑے پیمانے پر کر سکیں۔ ہم نے گزشتہ سال ہی الیکشن کمیشن کو لکھا تھا کہ اس کی ضرورت پڑے گی اور فنڈز دیے جائیں مگر کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔‘‘
ادھر الیکشن کمیشن نے کراچی کے حلقہ 250 کے 40 پولنگ اسٹیشنوں پر اتوار کو دوبارہ پولنگ کرانے کا اعلان کر دیا ہے تاہم متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کمیشن سے جاری بیان کے مطابق، بلوچستان کے ایک اور قبائلی علاقوں کے دو قومی اسمبلی کے حلقوں میں متعدد پولنگ اسٹیشنوں میں دوبارہ انتخابات آئندہ ہفتے ہونگے۔
مختلف حلقوں میں دھاندلیوں کے الزامات میں اضافہ ہو رہا ہے اور بظاہر سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف ان علاقوں میں ایسے مبینہ واقعات کی شکایات کی جارہی ہیں جہاں انہیں شکست یا کم نشتیں حاصل ہوئیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر باز کھیتران اپنے حلقے مین ہونے والی مبینہ دھاندلی کی نوعیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’مجھے ریٹرننگ افسر نے خود بتایا ہے کہ میرے حلقے میں موسیٰ خیل کے مقام پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ایک تعداد میں بیلٹ پیپرز جاری ہوئے مگر نتائج میں صوبائی اسمبلی کے لئے ڈالے گئے ووٹوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے تعداد چھ ہزار زیادہ ہے۔ رات کو دس بجے کے بعد یہ ووٹ ڈالے گئے۔‘‘
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ شواہد کے بغیر دھاندلی کے الزامات پورے جہوری عمل کے لیے نقصان دے ہو سکتا ہے۔ سینئیر صحافی اور کالم نگار سید طلعت حسین کہتے ہیں کہ امیدواروں کو دھاندلی کی شکایات کے لئے وضع کردہ طریقہ کار کو اپنا چاہیے۔
’’دھرنے سے آپ کو سیاسی تشہیر تو مل جاتی ہے مگر شکایات کا ازالہ ممکن نہیں۔ میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کو دھرنے کو نظام کے تحت شکایات میں لانا ہوگا ورنہ ہمارا جیتا ہوا ٹھیک ہے اور آپ کا غلط یا ہمارا ہارا ہوا غلظ ہے اور آپ کا درست اس قسم کی بیان بازی سے تمام نظام پر سوالیہ نشان آنے کا خدشہ ہے۔‘‘
پاکستان کی تاریخ مین پہلی بار کسی ایک سیاسی حکومت کی پانچ سالہ مدت کے مکمل ہونے کے بعد انتخابات کے ذریعے نئی سیاسی حکومت بننے جاری ہے اور بین الاقوامی برادری نے اس جمہوری عمل کے تحت اقتدار کی منتقلی کو سراہا ہے۔
بڑھتے ہوئے دھاندلیوں کے الزامات کے پیش نظر حکام کے مطابق الیکشن کمیشن کے اعلٰی عہدیدار کوائف کا انداراج کرنے والے قومی ادارے نادرا کے ذریعے متنازع پولنگ اسٹیشنوں یا حلقوں میں ڈالے جانے والے ووٹ کی تصدیق کرانے کے بارے میں ’’سنجیدگی‘‘ سے غور کر رہے ہیں۔
اسی سلسلے میں اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر میں بدھ کو ایک اجلاس ہوا جس میں نادرہ کے چیرمین طارق ملک نے اس متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
نادرا کے تیار کردہ جدید نظام کے تحت حکام کے بقول بیلٹ پیپر پر مخصوص سیاہی سے لگائے گئے انگوٹھے کے نشان سے اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے کہ آیا ووٹ ڈالنے والا وہی شخص ہے جس کے نام پر ووٹ رجسٹر ہوا ہے اور اس طرح جعلی ووٹوں کی نشاندہی ہو سکے گی۔
تاہم نادرا کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا ادارہ تصیدق کا عمل بڑے پیمانے پر فوری طور پر مکمل نا کر سکے۔
’’ہمارے پاس وہ سسٹم نہیں کہ یہ سب بڑے پیمانے پر کر سکیں۔ ہم نے گزشتہ سال ہی الیکشن کمیشن کو لکھا تھا کہ اس کی ضرورت پڑے گی اور فنڈز دیے جائیں مگر کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔‘‘
ادھر الیکشن کمیشن نے کراچی کے حلقہ 250 کے 40 پولنگ اسٹیشنوں پر اتوار کو دوبارہ پولنگ کرانے کا اعلان کر دیا ہے تاہم متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کمیشن سے جاری بیان کے مطابق، بلوچستان کے ایک اور قبائلی علاقوں کے دو قومی اسمبلی کے حلقوں میں متعدد پولنگ اسٹیشنوں میں دوبارہ انتخابات آئندہ ہفتے ہونگے۔
مختلف حلقوں میں دھاندلیوں کے الزامات میں اضافہ ہو رہا ہے اور بظاہر سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف ان علاقوں میں ایسے مبینہ واقعات کی شکایات کی جارہی ہیں جہاں انہیں شکست یا کم نشتیں حاصل ہوئیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر باز کھیتران اپنے حلقے مین ہونے والی مبینہ دھاندلی کی نوعیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’مجھے ریٹرننگ افسر نے خود بتایا ہے کہ میرے حلقے میں موسیٰ خیل کے مقام پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ایک تعداد میں بیلٹ پیپرز جاری ہوئے مگر نتائج میں صوبائی اسمبلی کے لئے ڈالے گئے ووٹوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے تعداد چھ ہزار زیادہ ہے۔ رات کو دس بجے کے بعد یہ ووٹ ڈالے گئے۔‘‘
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ شواہد کے بغیر دھاندلی کے الزامات پورے جہوری عمل کے لیے نقصان دے ہو سکتا ہے۔ سینئیر صحافی اور کالم نگار سید طلعت حسین کہتے ہیں کہ امیدواروں کو دھاندلی کی شکایات کے لئے وضع کردہ طریقہ کار کو اپنا چاہیے۔
’’دھرنے سے آپ کو سیاسی تشہیر تو مل جاتی ہے مگر شکایات کا ازالہ ممکن نہیں۔ میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کو دھرنے کو نظام کے تحت شکایات میں لانا ہوگا ورنہ ہمارا جیتا ہوا ٹھیک ہے اور آپ کا غلط یا ہمارا ہارا ہوا غلظ ہے اور آپ کا درست اس قسم کی بیان بازی سے تمام نظام پر سوالیہ نشان آنے کا خدشہ ہے۔‘‘
پاکستان کی تاریخ مین پہلی بار کسی ایک سیاسی حکومت کی پانچ سالہ مدت کے مکمل ہونے کے بعد انتخابات کے ذریعے نئی سیاسی حکومت بننے جاری ہے اور بین الاقوامی برادری نے اس جمہوری عمل کے تحت اقتدار کی منتقلی کو سراہا ہے۔