الیکشن کمیشن کی طرف سے ریٹرننگ افسران کے لیے انتخابات سے متعلق سوالنامے مہیا نا کرنے کی وجہ سے جانچ پڑتال کے عمل کے بارے میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان بھر میں انتخابی عمل زور و شور سے جاری ہے اور الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے تقریباً 11 ہزار کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل کر کے متعلقہ ریٹرننگ افسران کو بھیجے جا چکے ہیں۔ تاہم امیدواروں کی اہلیت کے لیے ان افسران کی جانب سے پوچھے جانے والے مذہب سے متعلق سوالات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر ایکشن نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو مدثر رضوی نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ریٹرننگ افسران کے لیے انتخابات سے متعلق سوالنامے مہیا نا کرنے کی وجہ سے جانچ پڑتال کے عمل کے بارے میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔
’’نماز اور مذہب کے بارے میں دیگر سوالات پوچھے ہی نہیں جانے چاہیئں کیونکہ یہ انتہائی ذاتی معاملہ ہے اور پھر کچھ ریٹرننگ افسران پوچھ رہے ہیں اور کچھ نہیں۔ جہاں بھی صوابدیدی اختیار دیے جاتے ہے وہاں شفافیت پر حرف آتا ہے۔ اگر کرنا ہے تو کہہ دیں کہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے فلاں فلاں آیت کا آنا ضروری ہے۔‘‘
مدثر رضوی نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بارے میں فوری اقدامات کرے اور انتخابی قوانین کے تحت ریٹرننگ افسران کو صرف اور صرف کمیشن کے احکامات کا پابند بنایا جائے۔
پاکستان کے موقر اخبار ڈان اپنے ایک اداریے میں ریٹرننگ افسران کے مذہب سے متعلق سوالات پر اصرار کو سابق فوجی آمر ضیاءالحق کی میراث قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ بظاہر اس مفروضے کو مان لیا گیا ہے کہ مذہبی دکھائی دینے والا شخص ہی پارلیمنٹ کا امیدوار ہو سکتا ہے اور اچھے کردار کا معیار کسی شخص کی مالی معاملات میں راست بازی یا خود مختاری نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں علم ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ اس انداز سے جانچ پڑتال کرنے کا مقصد بظاہر سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
’’سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہاں (ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں) ٹی وی چینلز کو کھڑا کرکے لوگوں کا تماشہ بناتے ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھانا چاہئے کہ جو لوگ ایسے سوالات پوچھ رہے ہیں وہ اگر کسی امیدوار کے بارے میں یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کتنا اچھا مسلمان ہے تو ان ججوں کو بھی بتانا چاہیے کہ وہ خود کتنے اچھے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہ منصف کے منصب پر فائز ہیں۔‘‘
تاہم الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان کہتے ہیں کہ مذہب سے متعلق پوچھے جانے سوالات آئین کے مطابق ہیں۔
’’اگر آپ کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے بارے میں علم نہیں تو آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان (کی قانون ساز اسمبلی) کے ممبر اور ملک کے لیڈر کیسے بن سکتے ہیں۔ یا تو آپ آئین میں تبدیلی کریں یا اس پر عمل کریں۔ اس دفعہ اس پر من و عن عمل ہوگا۔‘‘
ملک بھر کی ذیلی عدالتوں میں جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر انتخابات لڑنے کے جرم میں سابق قانون سازوں کے خلاف قانونی کارروائیاں جاری ہیں اور الیکشن کمیشن نے بھی 24 سابق اراکین اسمبلی کو ان کی جعلی ڈگریوں سے متعلق سماعت کے لیے جمعہ کو طلب کر لیا ہے۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر ایکشن نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو مدثر رضوی نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ریٹرننگ افسران کے لیے انتخابات سے متعلق سوالنامے مہیا نا کرنے کی وجہ سے جانچ پڑتال کے عمل کے بارے میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔
’’نماز اور مذہب کے بارے میں دیگر سوالات پوچھے ہی نہیں جانے چاہیئں کیونکہ یہ انتہائی ذاتی معاملہ ہے اور پھر کچھ ریٹرننگ افسران پوچھ رہے ہیں اور کچھ نہیں۔ جہاں بھی صوابدیدی اختیار دیے جاتے ہے وہاں شفافیت پر حرف آتا ہے۔ اگر کرنا ہے تو کہہ دیں کہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے فلاں فلاں آیت کا آنا ضروری ہے۔‘‘
مدثر رضوی نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بارے میں فوری اقدامات کرے اور انتخابی قوانین کے تحت ریٹرننگ افسران کو صرف اور صرف کمیشن کے احکامات کا پابند بنایا جائے۔
پاکستان کے موقر اخبار ڈان اپنے ایک اداریے میں ریٹرننگ افسران کے مذہب سے متعلق سوالات پر اصرار کو سابق فوجی آمر ضیاءالحق کی میراث قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ بظاہر اس مفروضے کو مان لیا گیا ہے کہ مذہبی دکھائی دینے والا شخص ہی پارلیمنٹ کا امیدوار ہو سکتا ہے اور اچھے کردار کا معیار کسی شخص کی مالی معاملات میں راست بازی یا خود مختاری نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں علم ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ اس انداز سے جانچ پڑتال کرنے کا مقصد بظاہر سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
’’سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہاں (ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں) ٹی وی چینلز کو کھڑا کرکے لوگوں کا تماشہ بناتے ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھانا چاہئے کہ جو لوگ ایسے سوالات پوچھ رہے ہیں وہ اگر کسی امیدوار کے بارے میں یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کتنا اچھا مسلمان ہے تو ان ججوں کو بھی بتانا چاہیے کہ وہ خود کتنے اچھے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہ منصف کے منصب پر فائز ہیں۔‘‘
تاہم الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان کہتے ہیں کہ مذہب سے متعلق پوچھے جانے سوالات آئین کے مطابق ہیں۔
’’اگر آپ کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے بارے میں علم نہیں تو آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان (کی قانون ساز اسمبلی) کے ممبر اور ملک کے لیڈر کیسے بن سکتے ہیں۔ یا تو آپ آئین میں تبدیلی کریں یا اس پر عمل کریں۔ اس دفعہ اس پر من و عن عمل ہوگا۔‘‘
ملک بھر کی ذیلی عدالتوں میں جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر انتخابات لڑنے کے جرم میں سابق قانون سازوں کے خلاف قانونی کارروائیاں جاری ہیں اور الیکشن کمیشن نے بھی 24 سابق اراکین اسمبلی کو ان کی جعلی ڈگریوں سے متعلق سماعت کے لیے جمعہ کو طلب کر لیا ہے۔