پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مزید 11 دہشت گردوں کی سزا کی توثیق کر دی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے بیان کے مطابق ان مجرموں کو مختلف مقامات میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ جن مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی اُن میں سے بعض بلوچستان پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل محمد فیاض کے قتل کے علاوہ پاکستانی فوج کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ ایک انسپکٹر، فوج کے ایک میجر عابد مجید اور فرنٹیر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کو مارنے میں ملوث تھے۔
جب کہ فوج کے مطابق سزائے موت پانے والے دہشت گردوں میں ملک میں فرقہ واریت کو پھیلانے اور ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کے مجرم بھی شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ محض فوجی عدالتوں کے قیام یا سزائے دینے سے اُن کے بقول دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
’’ہمارے خیال میں لوگ کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے مہلک ترین حملے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔
ان عدالتوں سے اب تک درجنوں مجرموں کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں لیکن ملک میں انسانی حقوق اور بعض وکلا تنظیمیں فوجی عدالتوں کی کارروائی پر عدم اطمینان کر اظہار کر چکی ہیں جب کہ ان عدالتوں سے سزائیں پانے والے بعض مجرموں نے ملک کی عدالت عظمیٰ سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔
جن مشتبہ شدت پسندوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی گئیں اُن میں سے بعض کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اُن کے رشتہ داروں کو نا تو اپنی مرضی کا وکیل مل سکا اور نا ہی اُن کے خلاف چلائے جانے والے مقدمات کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔
حکومت اور فوج کا موقف ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران مجرموں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے اور فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزاؤں کے خلاف وہ اپیل کا حق بھی رکھتا ہے۔
پاکستانی حکومت کے عہدیداران فوجی عدالتوں کے قیام پر ہونے والی تنقید کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں ایسے اقدام ناگزیر ہیں۔
جس آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ نے ان درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے کا کہا تھا۔