رواں ہفتے اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام اپنی نوعیت کی ایک منفرد عالمی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں امریکہ کے علاوہ اُن مغربی اور اسلامی ملکوں کے ماہرین نے شرکت کی جہاں قابل تجدید توانائی یعنی سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے شعبے میں تیز رفتار ترقی ہو رہی ہے۔
اس چار روزہ کانفرنس میں عالمی ماہرین نے پاکستانی سائنسدانوں اور محققین کو اپنے تجربات اور ان طریقوں سے آگاہ کیا جنہیں استعما ل کر کے پاکستان میں بھی قابل تجدید توانائی کے شعبے کو ترقی دے کر ملک کو درپیش توانائی کے بحران کو کم کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین اور توانائی شعبے کے ماہرجاوید لغاری نے اپنے مکالے میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ملک میں قابل تجدید توانائی کے شعبے کوترقی دینے کے لیے بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن اُن کے بقول پالیسی سازوں کی روایتی سُستی اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔
انھوں نے کہا’’امریکہ قابل تجدید توانائی سے پینتیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے ، جرمنی چھبیس ہزار، چین پچیس ہزار، بھارت گیارہ ہزار، مصر چار سو میگا واٹ اور ایران نوے میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان میں قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار چند میگا واٹ سے زیادہ نہیں ہے‘‘۔
جاوید لغاری نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کے اندر پیدا ہونے والی کل بجلی کا تیس فیصد اس وقت غیر مناسب نظامِ ترسیل یا چوری کی نظر ہورہا ہے اورفی الحال اگراس ضیاع کو ہی روک لیا جائے تو بجلی پیدا کرنے کا کوئی نیا منصوبہ شروع کیے بغیر ہی پاکستان میں توانائی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
کانفرنس میں شریک دفاع اورتوانائی کے امور کی ماہر ماریہ سلطان نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ چار روزہ مشاورت کے بعد مرتب کی گئی تجاویز پالسی سازوں کے لیے قابل تجدید توانائی کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان بھر سے سائنس دانوں کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ان کی آراء حاصل کی گئی ہیں جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
مصر سے آئے ہوئے پروفیسر یوسیری نے کہاکہ ان کے ملک میں قابل تجدید توانائی کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سائنسی برادری کا کلیدی کردار ہے جبکہ مصر کے کئی طالب علم حکومت کی کوششوں سے اس مضمون میں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں تاکہ وطن واپس آ کر وہ اس شعبے کی مزید ترقی کے لیے کام کریں۔
انہوں نے بتایا کہ مصر نے آج سے بیس سال پہلے ہی قابِل تجدید توانائی کی ترقی پرکام شروع کر دیا تھا اور اس وقت ان کے ملک میں بجلی کا قطعاً کوئی بحران نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا ستر سے زائد فیصد انحصار تیل اور قدرتی گیس پر ہے جس کی درآمد پر بھاری زر مبادلہ بھی خرچ ہو رہا ہے۔
گذشتہ ماہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت صوبہ سندھ کے علاقے گھارو میں ایک سو پچاس میگا واٹ ونڈ پاور یعنی ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگا۔
امریکی سفارت خانے کے مطابق منصوبے سے چھ لاکھ گھروں کی بجلی کی ضرورت پوری ہوگی اور ملک کا درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہوگا جس سے ہر سال 3.8 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اس منصوبے پر 32 ارب روپے لاگت آئے گی۔