سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور کھپت میں فرق 8,000 میگاواٹ سے تجاوز کر گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں کئی کئی گھنٹوں کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے اور پچھلے چند روز کے دوران اس میں غیر معمولی شدت آئی ہے۔
بجلی کے اس بحران کے باعث نا صرف صنعتیں بلکہ گھریلو صارفین بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور بجلی کی بندش کے خلاف پیر کو بھی ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جب کہ بعض مقامات پر ریل کی پٹڑیوں پر دھرنا بھی دیا گیا۔
ملک میں بجلی کے بحران کی شدت سے وفاقی اور صوبہ پنجاب کی حکومتوں کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے اسلام آباد میں اپنی جماعت کے ایک اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے دور اقتدار میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں نا کام ہو گئی ہے۔
’’توانائی کے بحران کی وجہ سے اس وقت پاکستان بہت مشکل میں ہے اور سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔ پاکستان سے باہر جا کر سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈے جا رہے ہیں یہ ملک کے لیے بہت افسوس ناک صورت حال ہے۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے کہا کہ ان کی جماعت بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کی ناصرف حمایت کرے گی بلکہ اراکین پارلیمان سمیت اس کے کارکن ان میں حصہ بھی لیں گے۔
وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے ملک کی مجموعی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
’’اس قسم کے بیانات کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن مظاہروں میں حصہ دار بن جائیں، سرکاری اثاثوں پر حملے کریں تو یہ صرف حکومت کا نقصان نہیں بلکہ قوم کا نقصان ہے۔ اس وقت ایسے نا مناسب بیان دینے سے پہلے سیاسی قیادت کو سوچنا چاہیئے۔‘‘
دریں اثنا توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پیر کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں اُنھوں نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ تیل فراہم کرنے والی قومی کمپنی ’پی ایس او‘ کو فوری طور پر واجب الاادا رقم کی ادائیگی کی جائے تاکہ تیل سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس مکمل سپلائی کی بحالی کے بعد دوبارہ کام شروع کر سکیں۔
سرکاری بیان میں کہا گیا کہ تیل کی فراہمی کے بعد بجلی پیدا کرنے والے دو اداروں کیپکو اور حبکو سے اضافی 2,000 میگاواٹ بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی جس سے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے واجب الاادا رقم کی ادائیگی نا کرنے کے بعد بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو تیل کی فراہمی روک دی تھی جس کے بعد پہلے سے موجود توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا۔
دریں اثنا پیر کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن جماعتوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر شدید احتجاج کیا۔ خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شرکت کی اور علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔
اس احتجاج میں متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین پارلیمنٹ میں پیش پیش تھے۔ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے ایوان میں حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پرانا ہے لیکن کیوں کہ اس بحران کی وجہ سے لوگ مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اس لیے ضروری ہے ایوان میں اب اس مسئلے پر تفصیل سے بات چیت کی جائے۔ ان کے اس بیان کے بعد جمعہ تک اجلاس کی کارروائی کے دوران لوڈ شیڈنگ اور تیل کی قیمتوں میں اضافے پر باضابطہ بحث جاری رکھنے کی تحریک بھی منظور کی گئی۔