’تیسری جنس‘ ، ’ خسرے‘، ’خواجہ سرا‘ ، ’ہیجڑے‘ یا ’ زنخے‘۔۔کچھ بھی کہہ لیجئے ۔۔یہ وہ چہرے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے کا ہرشخص جانتا ہے۔ یہ چہرے جانے پہچانے ہیں ۔لیکن، ان کی دنیا بہت حد تک اندیکھی ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے لئے یہ ’پراسرار‘ بھی ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ ان کی دنیا کو قریب سے دیکھنے والوں کی تعداد کم ہی ہوگی۔
پچھلے کچھ مہینوں سے یہ جانے انجانے چہرے اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی اسکرینز پر کسی نہ کسی حوالے سے نظر آرہے ہیں۔ یہ حوالے ان کے لئے خوش کن ہیں۔
وائس آف امریکہ سے حال دل بیان کرتے ہوئے انہی چہروں میں سے ایک الماس بابی کا کہنا ہے ”سپریم کورٹ نے انہیں پہچان دے دی ہے ، اب وہ اپنی ولدیت اور اپنی جنس اپنی مرضی سے لکھ سکیں گے۔
کراچی کے ایک وکیل اصغر شاہ کا کہنا ہے کہ ایک بے نام آدمی کو اس کی شناخت مل جانا ایسا ہی ہے جیسے اندھے کو آنکھیں مل جانا۔ پھر ووٹ کا حق اور روزگار کا آسرا صحرا میں پانی و خوراک ملنے سے کم اہم نہیں‘ ورنہ یہ وہ طبقہ تھا جس کے دکھ انیک اور سننے والا کوئی سوائے خداکے کوئی نہ تھا۔‘‘
سپریم کورٹ کی جانب سے ہمدردی کا جذبہ دکھائے جانے پر صنم ویلفیئر ایسوسی ایشن برائے تیسری جنس ،سندھ کی صدر صنم فاخر
تو اِس حد تک خوش ہیں کہ انہوں نے آئندہ ’انتخابات میں حصہ لینے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد سیاست میں موجود کرپشن کے خاتمے کے لئے جدوجہد ہے‘۔ کرپشن کینسر کی طرح معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ تیسر ی جنس کے لوگ کرپشن نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا کوئی خاندان نہیں ہوتا۔ ان کوصرف باعزت طریقے سے سر چھپانے کا ٹھکانا اور دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے۔
ملکی معاشرے میں خواجہ سراوٴں سے متعلق بہت سی جانی انجانی باتیں بھی کی جاتی ہیں ۔ ان کی دنیا کے بارے میں کچھ تصورات عجیب و غریب تصورات بھی لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان تصورات کی سچائی جاننے کے لئے نمائندے نے کراچی کی ایک بستی میں رہنے والے خواجہ سراوٴں کے ایک’ گرو‘ (استاد) سے رابطہ کیا۔ اس دوران جو باتیں انہوں نے وائس آف امریکہ سے شیئر کیں وہ بہت سے پہلووٴں پرسوچ کی دعوت دیتی ہیں ۔ یہ گرو گمنامی کے پردے سے باہر آنا نہیں چاہتے لیکن سہولت کے لئے ہم انہیں ”راشد گرو“ کے نام سے پکاریں گے۔
راشد گرو حلئے سے کیسے ہوں گے اس کا اندازہ آپ لگاسکتے ہیں۔ ان کی جسامت دبلی پتلی اورعمر پچاس سال کے قریب ہے۔ میک اپ کے بغیر بیٹھے ہوں تو اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ وی او اے کے استفسار پر انہوں نے اپنے تمام دکھ درد کھول کر رکھ دیئے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
”خواجہ سراجسمانی طور پر بظاہر مرد ہوتے ہیں لیکن ان کا چلنا پھرناعورتوں جیسا ہوتاہے۔ ان میں سے کچھ پوری طرح مرد بھی ہوتے ہیں اور شادی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ، ان کے بچے بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا چلنا پھرنا عورتوں سے مشابہت رکھتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں کچھ میں مردانہ صلاحیتیں انتہائی کم ہوتی ہیں۔ ان کی ایک قسم شوقیہ طور پر یا پیسے کمانے کے چکر میں آپریشن کراکے بھی خواجہ سرا بن جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیدائشی طور خواجہ سرا بہت کم ہوتے ہیں۔ سالہا سال میں ایک آدھ کوئی ایسا کیس ہوتا ہے جس میں کوئی خواجہ سرا جنم لے‘‘۔“
راشد گرو کا مزید کہنا ہے’’جوحقیقی خواجہ سرا ہوتے ہیں وہ بچپن میں ہی چار و ناچار اپنی دنیا عام لوگوں سے الگ بسالیتے ہیں۔ کچھ کو والدین خواجہ سراوٴں کے پاس پہنچادیتے ہیں کہ وہ ہم جیسوں کو لے کر معاشرے کو اپنا چہرہ دکھانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔ کچھ جب سمجھ آتا ہے تو خود ہی کسی گرو کے گھر کی چوکھٹ پکڑ لیتے ہیں۔ گرو انہیں یہ سوچ کر پناہ دے دیتے ہیں کہ بڑھاپے کا سہارا ہوگا۔ ہمارے پاس مستقل آمدنی کا کوئی سہارا نہیں ہوتا ، نوکری ہمیں کوئی دیتا نہیں اس لئے لڑکیوں کا روپ دھار کر کسی کی شادی اور کسی کے یہاں بچے کی پیدائش پر ناچنے گانے سے پیسہ کمالیتے ہیں۔ ہمارے نصیب میں یا تو ترس کھاکر پیسہ کمانا لکھا ہوتا ہے یا طعنے تشنے سن کر ۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ لوگ ہمیں بھی ’عام انسان ‘ سمجھ کر ہماری مدد کریں۔“
انہوں نے مزید بتایا:” خواجہ سرا ٹولیوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ معاشرے میں گزر بسر کرنے کے لئے ان کا اپنا ایک انتظام ہوتا ہے۔ چا ر چھ یا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ خواجہ سراوٴں کا ایک گرو ہ ہوتا ہے ۔ اس گروہ کا ایک سربراہ ہوتا ہے جسے ”گرو“ کہا جاتا ہے ۔ یہ گرو اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتا ہے ۔ وہ اپنے گروہ میں نئے شاگرد شامل کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے ۔ یہ اختیار وہ اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے ۔ جب ایک گرو کسی کو اپنا شاگرد بناتا ہے تو اس کا باقاعدہ اسے اعلان کرنا ہوتا ہے۔ یہ اعلان بھی ایک تقریب میں کرنا ہوتا ہے جس میں گانے بجانے اور رقص کا اہتمام ہوتا ہے ۔ تقریب میں برادری کے ہی لوگ شریک ہوتے ہیں۔ تقریب میں شاگرد کی ناک چھیدی جاتی ہے ، اسے بالی پہنائی جاتی ہے ۔ یہ لازمی رسم ہے۔ “
راشد کے مطابق ”گرو آپس میں شاگردوں کی خرید و فروخت بھی کرتے ہیں ۔ شاگرد خریدنے کے لئے بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں۔ ان رقموں کا تعین شاگرد کی خوب صورتی پر ہوتا ہے۔
گرو ہی اپنی پسند سے اپنے شاگرد کا نام رکھتا یا بدلتا ہے ۔ شاگرد کے لئے گرو کا کہنا ماننا لازمی ہے ۔ شاگرد گرو کے کھانے پینے ، بیماری کی صورت میں دوا دینے ، علاج کرانے ، اسے ڈاکٹر کے پاس یا اسپتال لے جانے کا ذمے دار ہوتا ہے ۔ استاد ہی کی مرضی سے ہر شاگرد صبح کمانے کے لئے گھر سے نکلتا اور گرو کی مرضی سے ہی کسی بھی فنکشن میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔ “
”اگر کوئی بیوی بچوں والا خواجہ سرا مرجائے تو اس کی میت اس کے گھر والوں کے سپرد کردی جاتی ہے بصورت دیگر کسی مولوی کو بلاکر مرحوم کا غسل کردیاجاتا ہے ۔ تمام خواجہ سرا مرد وں کا روپ دھار کرمسجد پہنچ جاتے ہیں۔ مرنے والے کو اجنبی یا انجان قرار دے کر اس کی نمازجنازہ اداکردی جاتی ہے۔ اکثر رات کے اندھیرے میں اسے قبرمیں منوں مٹی تلے دبا دیا جاتا ہے۔ ۔۔قسمت دیکھئے ہم جیسوں کی۔ زندگی بھر بھی سب سے الگ تھلگ اور مر کر بھی سب سے الگ۔۔۔ مرکر بھی انہیں کوئی اپنانے والا۔۔اپنا نام دینے والا نہیں ہوتا۔۔۔ قبرستانوں کے مرکزی دروازوں کے ساتھ۔۔ سب سے الگ تھلک جو۔۔بے نام ، بغیر کتبوں والی قبریں ہوتی ہیں۔۔ ان میں سے اکثرخواجہ سراوٴں کی ہی ہوتی ہیں ۔“