پاکستان میں سزائے موت کے مزید آٹھ قیدیوں کو پھانسی دے دی گئی جس کے بعد ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد سے تختہ دار پر لٹکائے جانے والے مجرموں کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی ہے۔
منگل کو یہ پھانسیاں صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں کی جیلوں میں دی گئیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے امور جیل خانہ جات چودھری ارشد سعید نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کو بتایا کہ "ملتان، بہاولپور اور گجرات کی جیلوں میں دو، دو جب کہ اٹک اور ڈیرہ غازی خان کی جیلوں میں ایک، ایک مجرم کو پھانسی دی گئی۔"
سزائے موت کے مجروں کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کا سلسلہ تقریباً چھ سال کی پابندی کے خاتمے بعد گزشتہ سال 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔
اس مہلک حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اسے ملکی تاریخ کا بدترین دہشت گرد واقعہ قرار دیا گیا۔
اولاً صرف دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت پانے والوں کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن بعد ازاں اس کا دائرہ کسی بھی جرم میں سزائے موت کے مرتکب قیدیوں تک بڑھا دیا گیا۔
اب تک دی گئی پھانسیوں میں بھی اکثریت ان مجرموں کی ہے جنہیں قتل اور دیگر ایسے سنگین جرائم میں سزائے موت سنائی گئی اور سزا کے خلاف ان کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں، اقوام متحدہ اور یورپی یونین پاکستان کی حکومت سے سزائے موت پر عملدرآمد کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتی آئی ہیں کہ اس سے دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں کو "خاص" تقویت نہیں ملے گی۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش "مخصوص حالات میں مخصوص اقدام" کرنا ضروری ہیں اور قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر قانون کے مطابق ہی عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔