جوہری معاملات سے متعلق نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں بھارت کے روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے ذخیرے پر تشویش کا اظہار کیا اور تمام تصفیہ طلب معاملات کے حل کے لیے بھارت کے ساتھ مسلسل مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا
فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک ریسٹرینٹ ریجیم یعنی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کے معاہدے کی خواہش کا اعادہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے ہی سٹاک ہوم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ سال بھارت دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا جبکہ 2014 میں وہ پہلے نمبر پر تھا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ روایتی ہتھیاروں میں عدم توازن سے جنگ کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو ایک نہایت تشویشناک بات ہے۔
تاہم بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ اپنی دفاعی ضروریا ت کو پور کرنے کے لیے ہی اسلحہ خریدتا ہے۔
واضح ہے کہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے اس لیے وہاں کے حکام کا یہ کہنا ہے کہ اس لیے نئی دہلی کی دفاعی ضروریات بھی زیادہ ہیں۔
تاہم پاکستان کی نیشنل کمانڈر اتھارٹی کا خیال تھا کہ بھارت کی طرف سے روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے خطے کے امن و سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر ماریا سلطان نے کہا کہ بھارت کی طرف سے خصوصاً میزائل شکن نظام کی تیاری خطے کے لیے غیر یقینی صورتحال کا باعث ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ اسٹریٹجک ریسٹرینٹ ریجیم بنائی جائے، یعنی ناصرف فریقین اس پر بات چیت کریں بلکہ جو میزائلوں کی دوڑ چل رہی ہے اس میں بھی کمی لائی جائے، اور اس کے لیے باضابطہ طور پر دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدے طے پائے۔‘‘
علاقائی اور عالمی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں شریک ہوئے بغیر اپنی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
اس سلسلے میں ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لیے فل سپیکٹرم ڈیٹرنس یعنی مکمل دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
اجلاس میں اگلے ماہ میں واشنگٹن میں متوقع جوہری سلامتی سے متعلق سربراہ اجلاس پر بھی بات چیت کی گئی جس میں وزیراعظم نواز شریف شرکت کریں گے۔
اجلاس کے شرکا کو پاکستان کی جوہری سلامتی کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کے بارے میں بتایا گیا۔
واضح رہے کہ جوہری سلامتی نہایت حساس معاملہ ہے کیونکہ جوہری مواد یا ہتھاروں کی چوری یا غلطی سے یا حادثتاً ماحول میں اخراج شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے جوہری مواد کے طبعی تحفظ سے متعلق کنونشن میں ترمیم کی توثیق کی بھی منظوری دی۔
پاکستان پہلے ہی جوہری مواد کے طبعی تحفظ سے متعلق کنونشن پر دستخط کر چکا ہے مگر اس کنوشن کے ترمیم شدہ مسودے میں جوہری تنصیبات اور جوہری مواد کی نقل و حمل کی سلامتی کے بارے میں غیر معمولی تبدیلیاں کی گی ہیں جس کے لیے اس کی دوبارہ توثیق لازمی ہے۔
اجلاس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کے پاس وہ تمام اسناد موجود ہیں جس سے وہ نیوکلیئر سپلائر گروپ سمیت کثیر الملکی ایکسپورٹ کنٹرول ریجیم کا حصہ بننے کا اہل ہے اور پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس سلسلے میں اس سے غیر امتیازی سلوک کیا جائے۔
یاد رہے کہ 2005 میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول جوہری معاہدہ کرنے کے لیے اپنے ملک کے جوہری عدم پھیلاؤ کے قوانین میں تبدیلی کی تھی اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ممالک کی طرف سے بھی بھارت سے اس شعبے میں ممکنہ معاونت کی حمایت کی گئی تھی جس کے بعد عالمی سطح پر بھارت کے ساتھ جوہری تعاون میں اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان چاہتا ہے کہ اسے بھی سول جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی اور تعاون فراہم کیا جائے۔
پاکستان کئی مرتبہ اس تشویش کا اظہار کر چکا ہے کہ بھارت نے سول جوہری معاہدہ استعمال کرتے ہوئے اپنے جوہری مواد کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جس سے وہ بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بھارت سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے پاکستان تیزی سے اپنی جوہری صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔
گزشتہ سال دو تحقیقی اداروں ’کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ اور ’دی سٹمسن سینٹر‘ کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا تھا اگر پاکستان اسی رفتار سے جوہری ہتھیار تیار کرتا رہا تو ایک دہائی میں وہ دنیا کا تسیرا بڑا ملک ہو گا جس کے پاس سب سے زیادہ ’نیوکلیئر بم‘ ہوں گے۔
تاہم پاکستان نے اس رپورٹ کو یہ کہ کر مسترد کر دیا تھا کہ پاکستان کسی بھی طور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کا خواہشمند نہیں ہے۔