پاکستان نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے اجمیر میں واقع مزار پر حملے کے ملزم اور سمجھوتہ ایکسپریس حملے کے مبینہ منصوبہ ساز کو عدالت سے بری کیے جانے پر بھارت سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق جمعہ کو اسلام آباد میں تعینات نائب بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر انہیں پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔
بیان کے مطابق "سوامی آسیم آنند نے کھلے عام فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی اس نے بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس افسر کرنل پروہت کی نشاندہی بھی کی جو اس کے بقول ایک دہشت گرد تنظیم کا سرغنہ اور سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گرد حملے میں اس کا معاون تھا۔"
پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ریل سروس "سمجھوتہ ایکسپریس" پر 19 فروری 2007ء کو بھارتی ریاست ہریانہ میں پانی پت کے علاقے پر دہشت گرد حملہ کیا گیا جس میں 42 پاکستانیوں سمیت 68 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بظاہر مذہبی انتہا پسندی کے تناظر میں کیے گئے اس حملے کے الزام میں سوامی آسیم آنند سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں انھیں اس الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔
اجمیر شریف درگاہ میں اکتوبر 2007ء میں ہونے والے دھماکے کے الزام میں بھی سوامی آسیم آنند کو چند دیگر ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ مقدمے کا سامنا تھا جس میں تین افراد کو مجرم قرار دیا گیا لیکن عدم شواہد کی بنا پر سوامی کو اس الزام سے بری کر دیا گیا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کا بیان میں کہنا تھا کہ وہ توقع کرتا ہے کہ بھارت سمجھوتہ ایکسپریس پر دہشت گرد حملے میں ملوث تمام عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گا۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کے اس احتجاج پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم بھارت نے بھی 2008ء میں ہونے والے ممبئی حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمٰن لکھوی کی ضمانت پر رہائی پر پاکستان سے احتجاج کیا تھا۔
بھارت کا مؤقف رہا ہے کہ دوطرفہ امن مذاکرات کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر استغاثہ نے مقدمہ کی صحیح طور پر پیروی نہیں کی ہے تو پھر احتجاج کی وجہ نظر آتی ہے تاہم ان کے بقول اس صورت میں احتجاج نہیں کیا جاسکتا ہے جب صحیح وجوہات کی بنیاد پر اگر عدالت کسی کو بری کر دے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات سے متعلق دونوں ملکوں کے تحفظات کو دورے کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو قانونی سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
"جس میں ایک دوسرے کے پراسیکیوٹر آپس میں ملاقات کریں جو لوگ ان کیسوں کی تفتیش کر رہے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں معلومات کا تبادلہ کریں تو پھر ہم اس کو قانونی سفارت کاری کہتے ہیں اس سے کافی زیادہ اعتماد میں اضافہ ہوگا کہ دونوں ملکوں کے پراسیکیوٹر اور ہوم ڈیپارٹمنٹس وہ ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس اور ممبئی حملوں جیسے واقعات کو منطقی انجام تک پہیچانا دونوں ملکوں کے مشترکہ تعاون ہی سے ممکن ہے۔