پاکستان نے بھارت کی طرف سے مبینہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں اضافے اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے تجربات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے خطے کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ بھارت اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کرنے کے لیے مبینہ طور پر ایک خفیہ جوہری شہر بھی تعمیر کر رہا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بھارت کی طرف سے روایتی اور جوہری ہتھاروں میں اضافہ کو پاکستان اور خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اس معاملے کا نوٹس لینے پر زور دیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے دعویٰ کیا کہ بھارت نے حال ہی میں جوہری ہتھیاروں کی حامل آبدوز کو بھی اپنے بحری بیڑے میں شامل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے جوہری مواد کا ایک ایسا ذخیرہ موجود ہے جو ان کے بقول جوہری توانائی کے عالمی ادارے ' آئی اے ای اے' کے تحفظات کے نظام کے تابع نہیں ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے پاکستان کے اس دعویٰ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، بھارت یہ کہتا آیا ہے کہ اس کا سول جوہری پروگرام ’آئی اے ای اے‘ کے وضع کردہ ضابطہ کار کے عین مطابق ہے۔
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ باعث تشویش ہے اور اُن کے بقول دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ وہ اس کو محدود کرنے کے لیے بات چیت کریں۔
"تشویش کی بات یہ ہے کہ جتنا بھی جوہری مواد خطے میں بڑھتا جائے گا اس کی وجہ سے جوہری دہشت گردی یا حادثے کے خدشات بھی بڑھتے جائیں گے تو آپ کہہ سکتے ہیں ان خدشات کے بڑھنے سے بھی خطے کی سلامتی کے لیے خطرات بھی بڑھتے جائیں گے۔"
ظفر جسپال نے کہا کہ اگر ان دونوں ملکوں کو بین الاقوامی جوہری اداروں میں برابری کی سطح پر شامل کیا جائے تو جوہری حادثات کو محدود کرنے میں مدد ملے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے کشیدہ باہمی تعلقات خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے بھی خطرے کا باعث بن رہے ہیں اس لیے پاکستان اور بھارت کو اپنے باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے پیش رفت کرنا ہو گی۔