پاکستان نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بیان سے اس موقف کی توثیق ہوئی ہے کہ بھارت خودمختار پڑوسی ریاست میں منفی کردار ادا کرتا رہا ہے۔
وزیراعظم مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 1971ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں بھارتی حکومت کی مداخلت کا اعتراف کیا تھا۔
دسمبر 1971 میں پاکستان کا یہ مشرقی صوبہ علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کی صورت میں ایک ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
منگل کو پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے ایک بیان میں اس امر کو افسوسناک قرار دیا کہ بھارتی سیاستدان نہ صرف ایسے اقدامات میں ملوث ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں بلکہ وہ دوسری ریاستوں کے داخلی معاملات میں اپنی مداخلت کو فخریہ طور پر یاد کرتے ہیں۔
ترجمان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے اعتراف کا نوٹس لے۔
بیان کے مطابق جب کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات پر یقین رکھتا ہے، وزیراعظم مودی کی طرف سے ایسا بیان بدقسمتی ہے۔
ترجمان نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام نہ صرف مذہبی رشتے میں جڑے ہیں بلکہ نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد بھی انھیں ایک مضبوط رشتے میں جوڑتی ہے۔
"بھارت کی طرف سے دو برادرانہ قوموں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ناچاقی کے بیج بونے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔"
وفاقی وزیربرائے دفاعی پیداوار رانا تنویر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بھارتی وزیراعظم کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی سیاستدانوں کو اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل منگل کو ہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی ایوان میں بھارتی وزیراعظم کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی جانی چاہیے۔