سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت میں عطیات دینے والی تنظیموں کی طرف سے سالانہ دس کروڑ ڈالر پاکستان میں اُن مدارس کو بھیجے جا رہے ہیں جو عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں۔اس بات کا انکشاف خفیہ امریکی سفارتی مراسلوں سے ہوا ہے جو اتوار کو وکی لیکس نے جاری کیے ہیں۔
یہ سفارتی مراسلہ نومبر2008ء میں بھیجا گیا تھا جس کے مطابق عطیات اسلامی فلاحی اداروں اور تبلیغی تنظیموں کی طرف سے مبینہ طور پر سعودی اور یو اے ای کی حکومتوں کی مدد سے دیے جاتے ہیں۔ ان معلومات کا ذریعہ پاکستانی حکومت اور غیر سرکری تنظیموں کے ذرائع بتایا گیا ہے تاہم اُن کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔
امریکی کانگریس کے سینیئر ارکان اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے دار یہ کہتے آئے ہیں کہ سعودی عرب میں عطیات دینے والی اور فلاحی تنظیمیں خطے بشمول افغانستان میں مسلمان انتہا پسندوں کی مالی مدد کررہی ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی سفارتی مراسلہ کے مطابق یہ مالی امداد اب جنوبی پاکستان کارُخ اختیار کررہی ہے جو کسی زمانے میں ملک کا اعتدال پسند حصہ سمجھا جاتا رہا ہے اور ناقدین متنبہ کرتے آئے ہیں کہ اس علاقے میں انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام کی طرف سے ان الزامات پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ نے وکی لیکس کی طرف سے جاری کیے گئے یہ مراسلہ شائع کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پنجاب صوبے کے جنوبی حصوں میں موجود یہ مدرسے غریب لڑکوں کو بھرتی کر کے اُنھیں انتہا پسندی کی تربیت دے کر ان میں سے کچھ کو پاکستانی حکومت اور افغانستان میں مغربی ملکوں کی افواج کے خلاف لڑائی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
سفارتی مراسلے میں کہا گیا ہے کہ مدرسے کے طالب علموں میں عمومی طور پر آٹھ اور بارہ سال کے درمیان عمر کے بچوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ اُن کی ذہنی تربیت کرنا نسبتاََ آسان ہوتا ہے۔ لاہور میں امریکی قونصل خانے کو”یقین ہے کہ بھرتی کے اس نیٹ ورک کا تیز ی سے پھیلنا پاکستان میں (امریکی حکومت کی) انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کوششوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے“۔