پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینئیر نائب صدر اجمل خان وزیر کا کہنا تھا کہ محدود مدت کے لیے تو آپ کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے لیکن کچھ عرصے کے بعد پھر اس کا اثر آتا ہے۔‘‘
اسلام آباد —
ملک میں خونریز شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے نواز شریف انتظامیہ طالبان عسکریت پسندوں سے مذاکرات شروع کیے ہوئے ہے اور سرکاری عہدیداروں اور رابطہ کاروں کے مطابق دونوں طرف سے شرائط ، موقف اور فریقین میں رابطوں کے اعتبار سے ایک کافی پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔
تاہم تعطل کے بعد طالبان رابطہ کار سرکاری ٹیم اور طالبان شوریٰ میں دوسری نشست کے آئندہ چند دن میں منعقد ہونے کی توقع کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ کوشش کافی نا ہونگی بلکہ موثر اور دیرپا قیام امن کے لیے قبائلی علاقوں میں سیاسی، انتظامی اور قانونی اصلاحات نا گزیر ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینئیر نائب صدر اجمل خان وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں کو صرف اسٹریٹیجک ایریا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر وہاں تیزی سے اصلاحات نہیں ہونے دی جاتیں۔
’’21 صدی میں رہ کر وہاں کے لوگوں کو ابھی تک بنیادی حقوق نہیں ملے۔ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں وہ نہیں جا سکتے۔ اس طرح ان کے پارلیمان میں نمائندے آئین کے تحت اپنے علاقوں کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتے۔ شارٹ ٹرم تو آپ کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے لیکن کچھ عرصے کے بعد پھر اس کا اثر آتا ہے۔‘‘
افغان سرحد کے قریب پاکستان کے سات قبائلی علاقوں میں مخصوص قانون ’’فرنٹیر کرائم ریگولیشن‘‘ لاگو ہے جس کئی سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکن ’’کالے قانوں‘‘ ست تشبیہہ دیتے ہوئے اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس قانون کے تحت وہاں کا انتظامی امور کا سربراہ یعنی پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس غیر معمولی انتظامی اور قانونی اختیار ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے عوام کو اختیارات دینا اور ریاستی نظام میں ان کی شراکت داری وہاں شدت پسندوں کے اثرورسوخ میں واضح کمی کا سبب بن سکتا ہے۔
قبائلی علاقوں سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم فاٹا ریسرچ سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر اشرف علی اس بارے میں کہتے ہیں۔
’’جنوبی و شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ پرامن انتخاب ہوئے تو وہ ہو سکتے ہیں تو بلدیاتی نظام کیوں نہیں ہو سکتا اور انتخابات کیوں نہیں ہو سکتے۔ پھر طالبان نے بھی اسے سبوتاژ کرنے کا نہیں کہا تو انہیں بھی اس طرح قومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں کو سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی مگر سابق صدارتی ترجمان اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ اعلان کے باوجود کئی اصلاحات پر اب تک عمل در آمد نہیں ہو سکا۔
’’لوگ اپنے اختیارات چھوڑتے نہیں ہیں اور اس میں بیوراکسی اور اسٹبلشمنٹ نہیں بلکہ قبائلی علاقوں کے قانون ساز بھی اپنے اختیار نہیں چھڑنا چاہئے۔ جیسے ملک بھر میں بلدیاتی نظام میں تاخیر اس لیے ہے کہ صوبائی حکومتیں اختیار منتقل نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘
وفاقی وزیر برائے ریاست و سرحدی امور عبدالقادر بلوچ قبائلی علاقوں کو اصلاحات کے ذریعے قومی دھارے میں لانے کے بارے کہتے ہیں۔
’’ابھی ابھی (قبائلی عوام میں) اس بارے میں احساس پیدا ہوا لیکن حکومت کو اس کا ادراک ہے۔ فاٹا پاکستان ہے، پاکستان فاٹا ہے۔ وہ مختلف لوگ نہیں ہیں۔ فاٹا کے لوگوں کو پاکستان کے باقی لوگوں کی طرح ٹریٹ کرنا ہے اور کیا جارہا ہے۔‘‘
قبائلیوں کا کہنا ہے کہ خونریز شدت پسندی کی وجہ سے ان کے علاقوں کی انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور اس خلا کو عسکریت پسندوں نے پر کر رکھا ہے۔
تاہم تعطل کے بعد طالبان رابطہ کار سرکاری ٹیم اور طالبان شوریٰ میں دوسری نشست کے آئندہ چند دن میں منعقد ہونے کی توقع کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ کوشش کافی نا ہونگی بلکہ موثر اور دیرپا قیام امن کے لیے قبائلی علاقوں میں سیاسی، انتظامی اور قانونی اصلاحات نا گزیر ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینئیر نائب صدر اجمل خان وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں کو صرف اسٹریٹیجک ایریا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر وہاں تیزی سے اصلاحات نہیں ہونے دی جاتیں۔
’’21 صدی میں رہ کر وہاں کے لوگوں کو ابھی تک بنیادی حقوق نہیں ملے۔ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں وہ نہیں جا سکتے۔ اس طرح ان کے پارلیمان میں نمائندے آئین کے تحت اپنے علاقوں کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتے۔ شارٹ ٹرم تو آپ کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے لیکن کچھ عرصے کے بعد پھر اس کا اثر آتا ہے۔‘‘
افغان سرحد کے قریب پاکستان کے سات قبائلی علاقوں میں مخصوص قانون ’’فرنٹیر کرائم ریگولیشن‘‘ لاگو ہے جس کئی سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکن ’’کالے قانوں‘‘ ست تشبیہہ دیتے ہوئے اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس قانون کے تحت وہاں کا انتظامی امور کا سربراہ یعنی پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس غیر معمولی انتظامی اور قانونی اختیار ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے عوام کو اختیارات دینا اور ریاستی نظام میں ان کی شراکت داری وہاں شدت پسندوں کے اثرورسوخ میں واضح کمی کا سبب بن سکتا ہے۔
قبائلی علاقوں سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم فاٹا ریسرچ سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر اشرف علی اس بارے میں کہتے ہیں۔
’’جنوبی و شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ پرامن انتخاب ہوئے تو وہ ہو سکتے ہیں تو بلدیاتی نظام کیوں نہیں ہو سکتا اور انتخابات کیوں نہیں ہو سکتے۔ پھر طالبان نے بھی اسے سبوتاژ کرنے کا نہیں کہا تو انہیں بھی اس طرح قومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں کو سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی مگر سابق صدارتی ترجمان اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ اعلان کے باوجود کئی اصلاحات پر اب تک عمل در آمد نہیں ہو سکا۔
’’لوگ اپنے اختیارات چھوڑتے نہیں ہیں اور اس میں بیوراکسی اور اسٹبلشمنٹ نہیں بلکہ قبائلی علاقوں کے قانون ساز بھی اپنے اختیار نہیں چھڑنا چاہئے۔ جیسے ملک بھر میں بلدیاتی نظام میں تاخیر اس لیے ہے کہ صوبائی حکومتیں اختیار منتقل نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘
وفاقی وزیر برائے ریاست و سرحدی امور عبدالقادر بلوچ قبائلی علاقوں کو اصلاحات کے ذریعے قومی دھارے میں لانے کے بارے کہتے ہیں۔
’’ابھی ابھی (قبائلی عوام میں) اس بارے میں احساس پیدا ہوا لیکن حکومت کو اس کا ادراک ہے۔ فاٹا پاکستان ہے، پاکستان فاٹا ہے۔ وہ مختلف لوگ نہیں ہیں۔ فاٹا کے لوگوں کو پاکستان کے باقی لوگوں کی طرح ٹریٹ کرنا ہے اور کیا جارہا ہے۔‘‘
قبائلیوں کا کہنا ہے کہ خونریز شدت پسندی کی وجہ سے ان کے علاقوں کی انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور اس خلا کو عسکریت پسندوں نے پر کر رکھا ہے۔