پاکستان کی طرف سے گو کہ افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان خاص طور پر سرحدی معاملات پر اختلافات کے تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ باہمی اعتماد سازی اور تعاون کے ذریعے کیے گئے اقدام ہی دیرپا ثابت ہو سکتے ہیں بصورت دیگر تعلقات میں تناؤ کا خطرہ بدستور موجود رہے گا۔
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہفتہ کو کہا تھا کہ خاص طور پر قبائلی علاقے باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں ترجیحی بنیادوں پر باڑ لگائی جائے گی اور فضائی نگرانی کے علاوہ زمینی نگرانی کے لیے بھی آلات نصب کیے جائیں گے۔
تاحال افغانستان کی طرف سے جنرل باجوہ کے اس بیان پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ماضی میں پاکستان کی جانب سرحد پر کیے جانے والے حفاظتی انتظامات دوطرفہ پرخاش کا باعث بن چکے ہیں۔
گزشتہ سال جون میں پاکستان نے ایک اہم سرحدی گزرگاہ طورخم پر اپنی جانب ایک گیٹ کی تعمیر شروع کی تھی جس پر کابل نے اعتراض کیا اور دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کا مہلک تبادلہ بھی ہوا۔
گزشتہ ماہ ہی پاکستان نے سلامتی کے خدشات کے پیش نظر طورخم اور چمن کے مقامات پر افغان سرحد کو بند کر دیا تھا جسے تقریباً ایک ماہ کے بعد جذبہ خیرسگالی کی بنیاد پر دوبارہ کھولا گیا۔
دونوں جانب کے مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ سرحد کی بندش مسئلے کا حل نہیں اور سرحد پر موثر نگرانی کے لیے باہمی طور پر اتفاق رائے سے اقدام کیے جانے ضروری ہیں۔
افغانستان میں اکثر حلقے پاکستان کے ایسے "یک طرفہ اقدام" کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
افغان قانون ساز سید اسحاق گیلانی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے یہ اقدام جلد بازی میں کیا جو کہ ان کے بقول مناسب نہیں۔
"اس سے قبائلی علاقوں میں اچھا تاثر نہیں پڑے گا۔۔۔اگر تھوڑا صبر کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی جائے تو چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔۔۔۔اگر اعتماد نہ ہو تو دونوں ملکوں میں جو دہشت گردی ہے وہ اور بڑھ جائے گی جس سے دونوں ملکوں کو نقصان ہوگا۔"
لیکن پاکستان میں دفاعی امور کی تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ سرحدی معاملات کو صرف شہریوں کی پریشانی سے جوڑنا درست نہیں کیونکہ اس سرحد سے نہ صرف عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت دیکھنے میں آتی رہی ہے بلکہ اربوں روپے کی منشیات بھی ان ہی ویران راستوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔
"افغان ہمارے بھائی ہیں ان کے لیے ہمارے دروزاے کھلے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ آپ قوانین کو بالائے طاق رکھ دیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کا مسئلہ جس کے خلاف دونوں ہی اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہیں لہذا بہتر ہے کہ اس سلسلے میں تعاون کو فروغ دیا جائے۔