پاکستان کے جو اضلاع حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اُن میں سے بعض علاقوں میں اس قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی اس قدر اچانک تھی کہ جان بچانے کے لیے مقامی آبادیوں کورات کے اندھیرے میں بے سرو سامانی کے عالم میں محفوظ مقاما ت کی طرف بھاگنا پڑا۔
ایک ماہ سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد اب جب سیلاب کا پانی اکثر علاقوں میں اتر چکا ہے یا اتر رہا ہے اور عارضی کیمپوں میں مقیم متاثرین کو ہنگامی امداد دینے کا عمل بھی کسی حد تک منظم ہو رہا ہے، بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق کئی متاثرہ خاندانوں نے اپنے بچوں کے لاپتہ ہونے کا انکشاف کیا ہے جب کہ عارضی کیمپوں میں بھی ایسے بچوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اپنے والدین سے بچھڑ چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں برطانوی ادارے ’’سیودی چلڈرن‘‘ کے ایک عہدیدارگریگ ریم نےاس صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا ہے کیونکہ اُن کے خیال میں والدین سے جدا ہونے والے بچے
غیرمحفوظ ہیں اور انہیں مختلف طرح سے ’’نقصان‘‘ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس مرحلے پر خاندانوں سے بچھڑنے والے بچوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانامشکل ہے لیکن بقول گریگ ریم کے یہ تعداد سینکڑوں میں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں سیلاب سے لگ بھگ دو کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سیودی چلڈرن اپنے دوسرے ساتھی اداروں کے ساتھ مل کر بچھڑے ہوئے بچوں کو واپس اپنے خاندانوں سے ملوانے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے اور کئی بچوں کے ملاپ میں کامیابی بھی ہوئی ہے۔
پناہ گیزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یواین ایچ سی آر کی ایک عہدے دار حمیرا محبوب نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بچھڑے ہوئے بچوں اور دوسرے ایسے متاثرین کو اُن کے خاندانوں سے ملانے کے لیے ان کے ادارے نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں خصوصی فلاحی مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہےتاکہ دیگر امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر بچھڑے ہوؤں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ ملاپ کو یقینی بنایا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں صوبہ خیبر پختون خواہ میں ستمبر کے آخر تک سات فلاحی مراکز قائم کیے جائیں گے جس کے بعد بلوچستان ،سندھ اور پنجاب میں بھی ان کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
گریگ ریم نے کہا کہ بچھڑے ہوئے بچوں کو ان کے خاندانوں سے ملوانا ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ بچے کسی ایک جگہ گروپ کی صورت میں موجود نہیں بلکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مدد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر متاثرہ جگہ تک پہنچ کر ان کو تلاش کیا جائے ۔
ایک اور برطانوی غیر سرکاری تنظیم آکسفیم کی پاکستان میں سربراہ نیوا خان کے مطابق کئی متاثرہ خاندان اس بات سے بھی لا علم ہیں کہ ان کے بچھڑے ہوئے پیارےاب زندہ ہیں بھی یا نہیںجب کہ انھیں تلاش کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
گذشتہ ہفتے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس نے بھی اس امر پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ سیلاب کے نتیجے میں بہت سے بچے ،خاص طور پر بلوچستان میں اپنے خاندانوں سے علیحدہ ہو گئے ہیں تاہم اس ادارے کو بھی ان بچوں کی صحیح تعداد کے بارے میں علم نہیں تھا ۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی یا آئی سی آر سی کے پاکستان میں مشن کے سربراہ پیسکل کٹٹ کے مطابق اپنے خاندانوں سے جدا ہونے والے بچے اس وقت مختلف امدادی کیمپوں میں بےگھر ہونے والے دوسرے متاثرین کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور یہی آبادی فی الحال ان کی دیکھ بھال بھی کر رہی ہے۔