اگرچہ پاکستان سے سیلاب اب ختم ہوچکا ہے تاہم سیلاب متاثرین خواتین کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ ان مشکلات کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت اور دیگر بین الاقوامی اداروں کا جائزہ کچھ کیوں ہے:
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آئندہ چھ ماہ کے دوران حالیہ سیلاب سے متاثرہ 32 ہزار حاملہ خواتین کو پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حفظان صحت کا ناقص ماحول اور سیلاب کی وجہ سے بیشتر حاملہ خواتین خوراک میں پروٹین اور آئرن کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کا شکار ہیں ۔ کیمپوں اور سڑکوں کے کنارے رہائش پذیر کئی حاملہ خواتین کو ہیضہ ، ملیریا یا اسی قسم کی دیگر خطرناک بیماریوں کا سامنا ہے جن کی وجہ سے ان کے آئندہ پیدا ہونے والے بچوں میں اموات کی شرح میں اضافے کا خدشہ ہے ۔
یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے ایک لاکھ بچوں کی زندگیوں کو کیمپوں میں حفظان صحت کے اصولوں کے فقدان اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کے باعث خطرہ ہے ۔
عالمی فنڈ برائے آبادی کے مطابق دو کروڑ سیلاب سے متاثرہ افراد میں 70 فیصد خواتین ہیں جن میں سے پانچ لاکھ حاملہ خواتین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق 1700 خواتین روزانہ زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں جن میں سے 250 طبی سہولیات کی کمی کے باعث زچگی کی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہی ہیں ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشتر کیمپوں میں شفاخانوں کی عدم موجودگی کے باعث حاملہ خواتین خیموں کے اندر بچے پیدا کرنے پر مجبور ہیں جہاں ان کے ارد گرد کا ماحول ان کی اور پیدا ہونے والے بچوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ ہے ۔
سیو دی چلڈرن تنظیم نے کیمپوں میں طبی سہولیات کے فقدان کے باعث لاکھوں خواتین اور پیدا ہونے والے پچاس ہزار بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ایک رپورٹ میں انہوں نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ ریلیف کیمپوں میں پانچ سال سے کم عمر 72 ہزار بچے ہیضہ اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں ۔