پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے سیلابوں نے جہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کی ملکی اہلیت پر سوال اٹھائے ہیں وہیں حکام ماحولیاتی تبدیلیوں کوبھی صورت حال کے بد ترین شکل اختیار کرنے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے وائس آف امریکہ کے پروگرام میں کہا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں پاکستان کا کردار کم سے کم ہے اور پاکستان جیسے ملک بڑے ملکوں کی جانب سے پیدا کی گئی ماحولیاتی آلودگی کی قیمت اداکر رہے ہیں۔
پاکستان کی ماحولیات کی وزیر شیری رحمان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس برس مون سون بارشوں کا سلسلہ معمول سے کہیں زیادہ شدید ہے اور بہت بڑا بحران سامنے کھڑا ہے۔
اسلام آباد حکومت کی طرف سے سیلابوں کی شدت پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثر انداز ہونے کا بیان کہاں تک درست ہے؟ اور سیلابوں کی روک تھام کے لیے تیاری اور ان کے نتیجے میں ہونے والی بے پناہ تباہ کاریوں میں منصوبہ بندی کی کمی کس حد تک کارفرما دکھائی دیتی ہے؟ ماہرین اس بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔
کچھ ماہرین کے خیال میں تین عوامل پاکستان کی موجودہ صورت حال میں آب و ہوا میں تبدیلی یا عالمی درجہ حرارت کا عمل دخل ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ملک میں شدید گرمی میں اضافہ، گلیشیئرز کا پگھلنا اور بارشوں میں کئی گنا اضافہ شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسو ی ایٹد پریس نے ماہرین کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ بلوچستان اور سندھ جیسے علاقوں میں اوسط بارش میں 400 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے شدید سیلاب آیا اور پانی کے تیز و تند بہاؤ سےکم از کم 20 ڈیم ٹوٹ چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بارش کی طرح گرمی کی شدت میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے پاکستان میں مسلسل درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ (113 فارن ہائیٹ) سے زیادہ رہا۔ جیکب آباد اور دادو میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ (122 فارن ہائیٹ) سے زیادہ جھلسا دینے والا درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ گرم ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے موسمیاتی سائنسدان مائیکل اوپن ہائیمر نے کہا کہ دنیا بھر میں ’’تیز بارش کے طوفان شدید تر ہو رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ تین ماہ سے جاری بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں کی سطح میں بلندی نے تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہے، ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں جب کہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق شدید گرمی سے گلیشیئر پگھلنے سے ہمالیہ کے پہاڑوں سے بہنے والے پانی کی رفتار سے پاکستان کو خطرناک گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ کی صورت حال کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن جرمن واچ کے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس پر پاکستان مسلسل ان 10 ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جنہیں ماحولیاتی تبدیلی سے بہت زیادہ غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
منگل کو امریکہ میں مقیم پاکستانی نژادامریکی پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو آب و ہوا کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے تغیرات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور لچکدار پالیساں اور اقدامات اپنانے ہوں گے۔ عادل نجم ، جو ماحولیاتی تبدیلی پر ہونے والی اہم تحقیق کا حصہ رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کی کوششوں کو ترقی کی رفتار سے جوڑتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹوئٹر اسپیس پر مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ موسموں میں تغیر نہیں آرہا بلکہ موسم پر اثر انداز ہونے والے آب و ہوا کےنظام میں تبدیلی دیکھی جارہی ہے جوکہ بہت اہم ہو سکتی ہے۔ انہوں نےکہا کہ ان تغیرات کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان اور بھارت کو پیش رفت کرنی ہوگی اور ہر شہری کو بھی اپنے انداز حیات پر نظر ثانی کرنا ہوگی کہ آیا یہ ہمارے مستقبل کے لیے مفید ہے یا نقصان دہ۔
دوسری طرف بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ آب و ہوا میں تبدیلی سیلابی تباہی کا سبب ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ محض ماحولیاتی تبدیلی کو پاکستان میں سیلابی تباہی کی وجہ قرار دینا مناسب نہیں کیونکہ ایسا کرنا حکومت کی قدرتی آفات سے نمٹنے کی پالیسیوں میں خامیوں کو چھپانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک محقق ارشد عباسی کہتے ہیں کہ مون سون کا سیزن جنوبی ایشیا میں زمانہ قدیم سے موجود ہے، اورسیلابی صورت حال کے لیے محض قدرت کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔
اس سلسلے میں وہ سن 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد لاہور ہائی کورٹ کی مرتب کردہ اس رپور ٹ کا حوالہ دیتے ہیں جو ’’روڈ اویکننگ" کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ مختلف جگہوں پر ڈیم بنانے اور دریاؤں کے اردگرد جنگلات اگانے سے سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بلین ٹری سونامی نامی منصوبے کے تحت درخت لگانے کو ایک موزوں اقدام قرار دیتے ہیں۔
امریکہ میں ٹوئٹر اسپیس پر گفتگو میں پاکستانی اور بھارتی شرکا نے ترقیاتی اور ماحولیاتی آلودگی پر بات کرتے ہوئے یہ تجویز بھی پیش کی کہ دنیا کے ترقی پزیر جنوبی ملکوں یعنی گلوبل ساؤتھ کو متحد ہوکر گلوبل نارتھ یعنی ترقی یافتہ ممالک سے ماحولیاتی آلودگی میں ان کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے فنڈز لینے کی بات کرنی چاہیے۔
پروفیسر عادل نجم نے کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے بیانیے میں کاربن کے اخراج کے مقابلے میں پانی کا ذکر ہونا چاہیے کیونکہ یہ سطح سمندر میں اضافے، بارشوں میں شدت اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلابی پانی کےمسائل کو بڑھا سکتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ پالیسی سازی اور اقدامات میں زور اس بات پر ہونا چاہیے کہ صورت حال کے تباہ کن بننے سے کیسے بچا جائے۔