اقوامِ متحدہ نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے لیے فوری طور پر 16 کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے۔ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ پاکستان مشکلات میں گھر چکا ہے، لہذٰا دنیا آگے بڑھ کر اس کی مدد کرے۔
منگل کو پاکستان کے دفترِ خارجہ کے زیرِ اہتمام اقوامِ متحدہ سے مدد کے لیے بلائی گئی کانفرنس کے موقع پر اپنے ویڈیو لنک خطاب میں انتونیو گوتریس نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، سیلاب سے متاثرہ پاکستان کو اس وقت مدد کی ضرورت ہے۔
تقریب میں وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈی نیٹر جولیان ہارنیس، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل اختر نواز ملک سمیت دیگر اعلٰی حکام نے شرکت کی۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا نشانہ آج پاکستان بنا ہے کل کوئی اور ملک بھی ہوسکتا ہے،گرین ہاؤس گیسز عالمی حدت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے ہنگامی امدادکی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کےباعث ہیٹ ویونےپاکستان میں تمام ریکارڈتوڑ دیے۔ کلاؤڈ برسٹ، مسلسل اور شدید بارشوں نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی جس سے نہ صرف شہروں میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہوئی بلکہ دریاؤں میں بھی طغیانی آئی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان شدیدموسمیاتی تبدیلیوں کی زدمیں ہے ،ملک کے مختلف حصوں میں آنے والے سیلاب نےتباہی مچا دی ہے۔اس وقت ملک کے 72اضلاع میں3کروڑافراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جب کہ 1100 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
مدد طلب کرنے کے ہنگامی اجلاس کے بعد اقوامِ متحدہ کے اہلکار جولیان ہارنیس کے ساتھ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یقیناً پاکستان میں اتنی بڑی پریشانی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جوں جوں امداد ملتی جائے گی یہ صلاحیت بڑھتی جائے گی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس وقت طلب رسد سے کہیں زیادہ ہے اگرچہ دوست ممالک کی جانب سے امداد بھیجی جا رہی ہے لیکن یہ متاثرین کے لیے ناکافی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت سے درآمدات کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے بعض علاقوں میں موجود پانی کو نکلنے میں کئی ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
سیلاب کے بعد اگلے تین چار سال پاکستان کے لیے مشکل
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم حق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتِ حال بہت خراب ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے اب تک سات سے آٹھ ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ اگر ہماری معیشت 75 برسوں میں اچھی چلتی تو آج ہمارے پاس 50 ارب ڈالرز کے ذخائر ہوتے جس سے ہم اس آفت میں خود کو باآسانی نکال سکتے تھے۔ لیکن اس وقت ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ اکنامکس سے منسلک استاد ڈاکٹر عبدالجلیل خان کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ملنا اچھا ہے لیکن یہ کوئی آخری پروگرام نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کو جو مشکلات آئی ہیں اس میں سیلاب کی وجہ سے مزید اضافہ ہوگا ۔ پاکستان کی معیشت مزید سست ہوجائے گی۔ اس آفت کی وجہ سے آئندہ چار سے پانچ سال تک صورتِ حال ایسی ہی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کمیونٹی کی طرف سے ہمیں بہت کم کیش امداد ملے گی، زیادہ تر ممالک ادویات، خوراک اور دیگر سامان فراہم کریں گی۔ کیش کی صورت میں ڈیڑھ دو سو ملین ڈالر کی امداد آئے گی، یہ صرف ڈیڑھ دو ماہ کی امداد ہے۔
ڈاکٹر عبدالجلیل خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس صورتِ حال سے نکلنے میں وقت لگے گا۔ سیلاب کے لیے ملنے والی امداد سے پاکستان کی معیشت پر کوئی بہتری نہیں ہو گی۔