بارشوں سے جانی و مالی نقصانات میں اضافہ ہوا ہے تاہم حکام نے سیلاب کے خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مون سون کا موسم ختم ہونے والا ہے۔
اسلام آباد —
ملک کے مختلف حصوں میں مون سون بارشوں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا
اوربرساتی ندی نالوں میں طغیانی نے کئی شہروں میں معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ بعض متاثرہ علاقوں میں فوجی جوان بھی امدادی کارروائیوں میں سول انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔
لیکن ماحولیات تبدیلیوں سے متعلق وفاقی وزیر رانا محمد فاروق نے کہا ہے کہ شدید بارشوں کے باوجود ملک کے کسی حصے میں سیلاب نہیں آیا اور نہ ہی اس کا خطرہ ہے کیونکہ مون سون کا موسم ختم ہونے والا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بارشوں کے موجودہ سلسلے کے بارے میں محکمہ موسمیات کے عہدے داروں کی بروقت پیش گوئیوں اور ہدایت کی بدولت ممکنہ نقصانات کو کم کرنےمیں تمام صوبوں کے متعلق اداروں کو مدد ملی۔
اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ ڈیرہ غازی خان کا نصف حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے مگر اس علاقے میں موجود کسی جوہری تنصیب کو شدید بارشوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
نیوز کانفرنس میں موجود آفات سے نمٹنے کے لیے قائم وفاقی ادارے این ڈی ایم اے کے سربراہ ظفر اقبال قادر نے بتایا کہ گزشتہ دو روز کے دوران بارشوں اور سیلابی ریلوں کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ نوے ہو گئی ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اگست کے اواخر سے اب تک مون سون بارشوں کے حالیہ سلسلے میں مجموعی طور پرملک بھر میں ڈیڑھ سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
وزارت ماحولیات کے سیکرٹری محمود عالم نے نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عالمی طور پر ماحول کے لیے نقصان دہ کاربن گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ محض اعشارہ پانچ فیصد ہے مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے دنیا کے دس ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے جس کی وجہ سے حالیہ چند برسوں میں یہاں تسلسل کے ساتھ شدید بارشیں، خشک سالی اور سیلاب آنا شروع ہوگئے ہیں۔
حالیہ بارشوں سے سندھ کے شمالی حصے، مرکزی پنچاب اور بلوچستان کے مشرقی حصے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
اوربرساتی ندی نالوں میں طغیانی نے کئی شہروں میں معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ بعض متاثرہ علاقوں میں فوجی جوان بھی امدادی کارروائیوں میں سول انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔
لیکن ماحولیات تبدیلیوں سے متعلق وفاقی وزیر رانا محمد فاروق نے کہا ہے کہ شدید بارشوں کے باوجود ملک کے کسی حصے میں سیلاب نہیں آیا اور نہ ہی اس کا خطرہ ہے کیونکہ مون سون کا موسم ختم ہونے والا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بارشوں کے موجودہ سلسلے کے بارے میں محکمہ موسمیات کے عہدے داروں کی بروقت پیش گوئیوں اور ہدایت کی بدولت ممکنہ نقصانات کو کم کرنےمیں تمام صوبوں کے متعلق اداروں کو مدد ملی۔
اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ ڈیرہ غازی خان کا نصف حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے مگر اس علاقے میں موجود کسی جوہری تنصیب کو شدید بارشوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
نیوز کانفرنس میں موجود آفات سے نمٹنے کے لیے قائم وفاقی ادارے این ڈی ایم اے کے سربراہ ظفر اقبال قادر نے بتایا کہ گزشتہ دو روز کے دوران بارشوں اور سیلابی ریلوں کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ نوے ہو گئی ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اگست کے اواخر سے اب تک مون سون بارشوں کے حالیہ سلسلے میں مجموعی طور پرملک بھر میں ڈیڑھ سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
وزارت ماحولیات کے سیکرٹری محمود عالم نے نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عالمی طور پر ماحول کے لیے نقصان دہ کاربن گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ محض اعشارہ پانچ فیصد ہے مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے دنیا کے دس ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے جس کی وجہ سے حالیہ چند برسوں میں یہاں تسلسل کے ساتھ شدید بارشیں، خشک سالی اور سیلاب آنا شروع ہوگئے ہیں۔
حالیہ بارشوں سے سندھ کے شمالی حصے، مرکزی پنچاب اور بلوچستان کے مشرقی حصے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔