وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت کا بیل آؤٹ پیکج کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اقتصادی ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک نیوزکانفرنس کے دوران وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت زیر گردش قرضوں کو کم کرنے اور محصولات کا دائرہ بڑھانے کے لیے اقدام کر رہی ہے جس سے ملکی معیشت مزید بہتر ہوگی۔
مفتاح اسماعیل کے بقول حکومت آئندہ پانچ سالوں میں محصولات کے وفاقی ادارے کی آمدن کو دگنا کرنے کے لیے اقدام کر رہی ہے۔
لیکن اقتصادی امور کے ماہر اور سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ حکومت کے اس دعوے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستانی اقتصادیات کے اشاریوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اسے آئندہ چند ماہ میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ سکتا ہے۔
"یہ اور بات ہے کہ اچانک زرمبادلہ بہت زیادہ بڑھ جائے، برآمدات بڑھ جائیں اور درآمدات کم ہو جائیں یا بیرونی سرمایہ کاری میں ایک دم اضافہ ہو جائے تو اس طرح کی چیزیں اگر ہوتی ہیں تو آپ کا بچاؤ ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہی اشاریے رہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے جیسا کوئی ایک آدھ دھچکہ لگا تو پھر تو آپ کو جانا پڑے گا آئی ایم ایف میں۔"
ان کا کہنا تھا کہ مفتاح اسماعیل نے جن اقدام کی بات کی ہے اس کے نتائج آنے میں وقت لگے گا اور یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ کتنے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل کے بقول حکومت نے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے روپے کی قدر میں کمی سمیت متعدد اقدام کیے ہیں اور انھیں امید ہے کہ یہ ثمر بار ہوں گے۔
موجودہ حکومت نے 2013ء میں اقتدار میں آنے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے چھ ارب ڈالر سے زائد کا قسط وار قرضہ حاصل کیا تھا اور یہ پروگرام 2016ء کے اواخر میں اختتام کو پہنچا تھا۔
حکومت نے حزب مخالف کے تحفظات اور تنقید کے باوجود جمعہ کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ چونکہ حکومت آئندہ ماہ اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے لہذا وہ پورے سال کی بجائے محض چند ماہ کا بجٹ پیش کرے۔