پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے اپنے ہاں اور پڑوسی ملک افغانستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد واقعات کے تناظر میں کہا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون ناگزیر ہے جب کہ انھوں نے ایک بار پھر افغان حکومت اور عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
پاکستانی حکام کا موقف رہا ہے کہ عسکریت پسند چھپنے کے لیے افغان پناہ گزین کیمپوں کو استعمال کرتے ہیں اور اس بنا پر ان کا اصرار ہے کہ ان پناہ گزینوں کی جلد اور رضاکارانہ بنیادوں اپنے وطن واپسی ضروری ہے۔
نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کو واپس جانا چاہیے اور افغان حکومت اپنی سرحد کی نگرانی موثر بنائے تاکہ دہشت گرد واقعات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔
"ہماری درخواست ہے افغانستان سے، اپنے بھائیوں سے اور بین الاقوامی برادری سے کہ ان پناہ گزینوں کو واپس لے جائیں اور سرحد کی مناسب نگرانی کریں۔ اس سے دہشت گردی کے واقعات پر دونوں اطراف بہت اچھا اثر پڑے گا اور یہ کنٹرول ہوں گے۔"
گزشتہ ماہ کے اواخر میں محض چند روز کے وقفے سے افغان دارالحکومت کابل میں تین مہلک دہشت گرد حملے ہوئے تھے جن میں لگ بھگ 140 افراد ہلاک اور سیکڑوں دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ جب کہ ہفتے کو پاکستان کے علاقے سوات میں ایک خودکش حملے میں ایک فوجی افسر سمیت 13 اہلکار مارے گئے تھے۔
افغانستان کی طرف سے اپنے ہاں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کے شواہد پاکستان کو فراہم کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی لیکن اسلام آباد نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کابل کی طرف سے جو شواہد فراہم کیے گئے وہ قابلِ وثوق نہیں تھے لیکن ان کے بقول حالیہ اعلیٰ سطحی رابطے تعلقات کی بہتری کے لیے اچھا آغاز ہیں اور دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ باہمی تعاون کو بڑھائیں۔
"دونوں ممالک جب آپس میں تعاون نہیں کریں گے۔ باہمی طور پر اس مسئلے سے سنجیدگی سے نہیں نمٹیں گے تو یہ ہمارے دونوں ملکوں کے لیے یہ عذاب جاری رہے گا ختم نہیں ہوگا۔"
دریں اثنا پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک تازہ انٹرویو میں بھی ایک بار پھر افغان مسئلے کے بات چیت کے ذریعے حل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں قیامِ امن کے لیے بالآخر افغانوں کو ہی بیٹھ کر بات کرنا ہوگی اور اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔