'یہ بھارت کو سوچنا ہے کہ مواقع ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہے'

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن میں پاکستانی میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کو یہ دیکھنا ہے کہ امن کے راستے پر کون چلنا چاہتا ہے اور اس سے کون کترا رہا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت نے وزیر خارجہ کی سطح پر ملاقات کیلئے اقرار کر کے انکار کر دیا اور اب یہ بھارت کو سوچنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے مواقع ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہے۔

واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنی مغربی سرحد پر امن و استحکام کی کوششوں میں معاونت کریں تو اگر مشرقی سرحد کی جانب لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے چھیڑ چھاڑ جاری رہتی ہے تو اس سے خطے میں امن و استحکام قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کو یہ دیکھنا ہے کہ امن کے راستے پر کون چلنا چاہتا ہے اور اس سے کون کترا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کی طرف سے اس سوال پر کہ پاکستان کی طرف سے حالیہ طور پر ڈاک کا ایک ٹکٹ جاری کیا گیا ہے جس میں کشمیر میں ہلاک ہونے والے کشمیری لیڈر برہان الدین وانی کی تصویر کے ساتھ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ تحریر کیا گیا ہے، تو کیا کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے روایتی بیانیے میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد موجود ہے جس میں کشمیر میں استصواب رائے کیلئے کہا گیا تھا۔ لہذا کشمیری عوام کا جو فیصلہ ہو گا پاکستان اُس کی حمایت کرے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ کشمیری عوام یقینی طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ لہذا پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔

پاکستان امریکہ تعلقات کے بارے میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دونوں ملکوں کی تاریخ کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی سیکیورٹی کے حوالے سے تعاون منقطع ہوا تو اس سے دونوں ملکوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ تعلقات بہتر بنانے کیلئے دونوں ملکوں میں رابطوں کا تسلسل ضروری ہے اور وہ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو سے متوقع ملاقات میں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ تعلقات بہتر کرنے کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ پومپیو کی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ فون پر بات چیت کے بعد دونوں ممالک کے طرف سے جاری ہونے والے بیانات سے پیدا ہونے والے ابہام کے بارے میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ اپنے بیان کردہ مؤقف پر قائم ہیں اور اب دونوں ملک اُس سے آگے بڑھ چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی طرف سے اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان اس وقت امریکہ اور چین کی معاشی جنگ میں پھنس رہا ہے ہے تو ان حالات میں پاکستان امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے رکھ پائے گا، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ اور چین دونوں سے تعلقات پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ چین پاکستان کا دیرینہ اور قابل اعتماد دوست ہے اور اس وقت پاکستان اور چین اقتصادی راہداری کے ایک بڑے منصوبے پر مل کر کام کر رہے ہیں جو پاکستان کیلئے بہت اہم ہے اور اس سے نا صرف دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا بلکہ پورا خطہ اس سے مستفید ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی پاکستان کیلئے بہت اہم ہے اور پاکستان دونوں ممالک کے ساتھ قریبی رابطے جاری رکھے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ چین پاکستان کی صورت حال کو اچھی طرح جانتا ہے اور اسے پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بہتر ہونے کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس دورے کا مقصد مالی امداد کا حصول بالکل نہیں تھا بلکہ ملاقاتوں کے دوران ایسے شعبوں کا تعین کیا گیا جن میں دو طرفہ قریبی تعاون کیلئے فریقین میں دلچسپی پائی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان شعبوں میں پیش رفت کے سلسلے میں اُنہوں نے سعودی عرب اور متحدہ امارات میں اپنے ہم منصب کو خط لکھے ہیں اور توقع ہے کہ ان پر جلد کام شروع ہو جائے گا۔