ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں تعطل: دہشت گردی کی روک تھام کے لیے وفاق کا صوبوں کو الرٹ جاری

وفاقی وزارتِ داخلہ نے تمام صوبائی حکومتوں کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیےا قدامات کی ہدایت کی ہے۔ فائل فوٹو

پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی طرف سے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر وفاقی حکومت نے ملک بھر میں متعلقہ حکام کو الرٹ جاری کرتے ہوئے کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کی روک تھام کے لیے مؤثر کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب پاکستان کے صوبۂ خیبر پختونخواہ میں تشدد کے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں۔ ان میں سے بعض واقعات کی ذمے داری کالعدم ٹی ٹی پی نے بھی قبول کی ہے۔

ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ رواں سال شروع ہونے والے مذکرات کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا تھا تاہم اس اعلان کے بعد بھی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی کارروائیوں کی ذمے داری بھی قبول کی ہے۔

جمعرات کو پاکستان کے انگریزی روزنامہ اخبار ’ ڈان‘ میں شائع ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے تین سے سال جاری مذکرات بظاہر تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے چار وں صوبوں ، گلگت بلستان اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کی حکومتوں کو لکھے گئے ایک خط میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے کسی بھی حملے کے خطرے کی روک تھام کے لیے بروقت اقدام کیے جائیں۔

گزشتہ ماہ لکھے گئے اس خط میں بتایا گیا تھا کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذکرات تقریباً معطل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے کالعدم تنظیم کی صفوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ حکومت سابق قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے اقدام کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کے علاوہ جنگ بندی میں توسیع دینے کے لیے جاری بات چیت کے باوجود ٹی ٹی پی کے کارکنوں کی حراست میں لیا جارہا ہے۔

SEE ALSO: لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر افغان طالبان میں پھوٹ، 'قیادت پر دباؤ بڑھ رہا ہے'

حکومتِ پاکستان پہلے بھی کئی بار اس خدشے کا اظہار کر چکی ہے کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں دوبارہ شدت پسندی کی کارروائیاں کرنے کے لیے افغانستان سے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں منتقل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کامؤقف

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ پر تاحال پاکستان کی وفاقی حکومت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے جب کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں صوبائی حکومت کو وفاقی وزارت داخلہ کا خط موصول ہونے کی تصدیق کی ہے اور اس مراسلے کو وفاق اور صوبوں کے درمیان معمول کی خط کتابت کا حصہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پہلے ہی سے سیکیورٹی ادارے چوکس اور عسکریت پسندی یا دہشت گردی کے کسی بھی واقع سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

کور کمانڈر پشاور کا دورۂ شمالی وزیرستان

دوسری جانب کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے شمالی وزیرستان کے اتمانزئی قبیلے کے سرکردہ رہنماوں اور عمائدین پر مشتمل روایتی جرگہ کو علاقے میں قیامِ امن اور ترقیاتی منصوبوں میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے منگل کے روز شمالی وزیرستان کے دورے کے موقع پر ضلعی انتظامی مرکز میران شاہ میں گرینڈ عثمان زئی جرگہ میں شامل قبائلی عمائدین سے ملاقات کی تھی۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں رونما ہونے والے تشدد کے واقعات پر سیاسی و سماجی حلقے تحفطات کا اظہار کررہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کی واپسی، عوام نے مزاحمت کا آغاز کر دیا

سوات سمیت صوبے کے سابق قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ سماجی و سیاسی حلقے حکومت سے تشدد کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں۔

کور کمانڈر پشاور کے دورے سے قبل پیر اور منگل کو شمالی وزیرستان اور خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسز نے الگ الگ کارروائی کرتے ہوئے کم ازکم 12 مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

قبل ازیں حکام کے مطابق پیر کو پشاور آنے والی سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کو کوہاٹ روڈ پر واقع علاقے حسن خیل کے گاوں شیرہ کیرہ کے مقام پر ٹی ٹی پی کے بعض شدت پسندوں نے بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا تھا۔ اس کارروائی میں سیکیورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے گئے تھے۔