امریکہ کے معروف نشریاتی ادارے، ’بلومبرگ‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اشارہ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل خان کے حوالے سے بتایا گیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر کم ہو جانے اور برآمدات میں ہونے والی مسلسل کمی کے باعث ایک مرتبہ پھر حکومت بین الاقوامی منڈی میں بانڈ جاری کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ بانڈ آئندہ ہونے والے عام انتخابات سے فوراً پہلے جولائی میں جاری کئے جائیں گے جس سے حاصل ہونے والے لگ بھگ ڈھائی ارب ڈالر کے سرمائے کا کچھ حصہ ایسے منصوبوں پر لگایا جائےگا، جن سے حکمران جماعت کو انتخابات میں زیادہ حمایت حاصل ہو سکے۔
’وائس آف امریکہ‘ نے ان معاملات کے بارے میں دو کلیدی ماہرین اقتصادیات سے گفتگو کرکے اُن کی رائے معلوم کی۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر اور ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر زبیر اقبال نے حکومت کے ان اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ملک کو تباہی کی جانب لے جا رہی ہیں۔
اُنہوں نے کہا ہے کہ پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف سے بہت زیادہ قرضے حاصل کر چکا ہے اور دوبارہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا معاشی خود کشی کے مترادف ہو گا، کیونکہ اس کے نتیجے میں جو شرائط عائد کی جائیں گی، پاکستانی حکومت اُنہیں پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
ڈاکٹر زبیر نے کہا کہ آئی ایم ایف پاکستان میں ایسی اقتصادی اصلاحات پر زور دے گا جن سے ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ ہو، بچت بڑھائی جائے اور تصرف کو کم کیا جائے، تاکہ کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ کے خسارے کو کم کرتے ہوئے اسے مناسب سطح پر لایا جا سکے۔
تاہم، یہ ایسی اصلاحات ہیں جن پر پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کئے بغیر ہی عمل کر سکتا ہے۔ لیکن، پاکستانی حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر اقتصادی اصلاحات میں دلچسپی رکھتی۔
ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ انتخابات کا سال ہے، حکومت اپنے اخراجات کو کم نہیں کرنا چاہتی۔ یوں حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ مزید قرضے حاصل کر کے اپنے اخراجات پورے کرے۔
تاہم، پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ممتاز ماہر اقتصادیات شاہد جاوید برکی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال کے بارے میں جن خدشات کا اظہار عالمی اور ملکی میڈیا میں کیا جاتا ہے وہ حقائق سے کہیں مختلف ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جب کسی بھی ملک کی معیشت طویل عرصے سے سست روی کا شکار رہتی ہے، تو نتیجتاً بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ تاہم، اگر ترقی کی رفتار بہتر ہو جاتی ہے تو پھر خسارہ بڑھنے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں رہتی۔
شاہد جاوید برکی نے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ بحالی کی جانب گامزن ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی صورت حال ایسی ہے جس میں جمہوریت فروغ پا رہی ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار ہیں جو جمہوری عمل میں معمول کی بات ہے۔ برسر اقتدار جماعت ہمیشہ یہ چاہتی ہے کہ وہ رقوم اُن منصوبوں پر خرچ کرے جو اُس کے خیال میں اُس کے حامیوں کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوں گے۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی منڈی میں نئے بانڈ جاری کرنے کے متوقع اقدام کے حوالے سے شاہد جاوید برکی کا کہنا تھا کہ اس سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ تاہم، اگر حکومت اس سے حاصل ہونے والی رقوم کو دانشمندی سے خرچ کرے تو اس کے قرضے کو لوٹانا ممکن ہو جائے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے ماہرین نے اُنہیں بتایا ہے کہ اُنہوں نے پاکستانی حکومت کو از خود اقتصادی اصلاحات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ عالمی بینک کے ماہرین کے مطابق، پنجاب حکومت کی طرف سے کی جانے والی زرعی اصلاحات قابل ستائش ہیں ۔ تاہم، پاکستان میں اب بھی ایسی فصلیں اگائی جا رہی ہیں جن کی قدر کم ہے۔ لیکن، اُن پر پانی بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑے زمیندار اپنے مفادات کی خاطر زرعی اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں۔
شاہد جاوید برکی نے ’بیل آؤٹ‘ کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اُن کے مطابق، پاکستان کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ خود سے ایسی اقتصادی اصلاحات کرے جو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی صورت میں اسے کرنا ہوں گی۔
شاہد جاوید برکی نے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستانی معیشت کیلئے یقینی طور پر ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔ تاہم، ملکی اور بین الالقوامی میڈیا میں اس کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جو حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔