انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 'ایچ آر سی پی' نے صوبہ پنجاب میں متعدد غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے سے روکنے کے مبینہ حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ایچ آرسی پی کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ ایسی غیر سرکاری تنظمیوں جو عورتوں اور انسانی حقوق کے کاموں میں سرگرم تھیں انہیں اپنی سرگرمیوں کو روکنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق صوبہ پنجاب میں کام کرنے والی ایسی درجنوں تنظیموں کو یہ کہتے ہوئے کام بند کرنے کا کہا گیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ تاہم ان سرگرمیوں کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے۔
ان ہی تنظیموں میں گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں سماجی کاموں میں سرگرم تنظیم ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان بھی شامل ہے۔ تنظیم کے ایک عہدیدار محمد تحسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب میں واقع ان کی تنظیم کے متعدد دفاتر کے عہدیداروں کو حکام نے اپنا کام بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ پنجاب کے محکمہ داخلہ کی طرف سے تنظیم کے نام لکھے گئے خط میں بھی تنظیم پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے کہا گیا۔
محمد تحسین نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کی تنظیم کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہے۔
ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرہ یوسف کہتی ہیں "یہ ایک افسوناک رجحان ہے کیونکہ ایسا نظر آتا ہے کہ حکومت یا کسی اور ادارے سے متعلق اختلاف رائے اور تنقید کو براداشت کرنے کا حکومت کا ارادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ (اقدام) جو شہریوں کی بنیادی حقوق ہیں ان کی بھی خلاف ورزی ہے۔"
حالیہ سالوں میں حکومت کی طرف سے پاکستان میں کام کرنے والی مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف پالیسی کو سخت کیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض تنظیمیں ریاست مخالف سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ 2015ء میں حکومت نے بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کو کام کرنے سے روک دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں اسے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
صوبے میں غیر سرکاری تنظیموں کو کام سے روکنے کی اطلاعات پر وائس آف امریکہ کی طرف سے متعد بار فون کے ذریعے متعلقہ حکام کا موقف جاننے کی کوشش کے باوجود کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم قبل ازیں حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ملک میں ان تنظیموں پر کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے جو قانون کے مطابق رجسٹرڈ ہیں اور اپنے وضع کردہ دائرہ کار میں رہ کر کام کرتی ہیں۔ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ایسی تنظیموں کی تعداد کتنی ہے جنہں کام کرنے سے روکا گیا ہے تاہم ذرائع ابلاغ میں سامنے والی اطلاعات کے مطابق ان کی تعداد درجنوں میں ہے۔